صومالیہ اور قرنِ افریقہ میں انسانی المیہ رونما ہونے کے قریب
14 ستمبر 2022انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) نے صومالیہ اور قرنِ افریقہ میں مہینوں تک فوڈ سیکیورٹی کا جائزہ لینے کے بعد ایک مشترکہ جائزہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ یہاں ایک انسانی المیہ رونما ہونے کو ہے۔ صومالیہ میں ایسے افراد کی تعداد 2022ء کے آغاز کے مقابلے میں41 لاکھ سے بڑھ کراب 71 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جنھیں فوری غذائی امداد درکار ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ متوقع ہے۔
آئی ایف آر سی کے صدر فرانسسکو روکا نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ قرنِ افریقہ میں رہنے والے 22 ملین افراد پہلے ہی بڑھتے ہوئے غذائی بحران کے چنگل میں ہیں۔ روکا نے زور دے کر کہا، ''سن 2022 میں صورتحال خراب ہونے کی توقع ہے۔‘‘ ا
نہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ’’ خطے کی ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘‘ دریں اثنا آئی سی آر سی کے سبکدوش ہونے والے صدر پیٹر مورر نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی برادری قحط کے باضابطہ اعلان تک کارروائی کا انتظار کرتی ہے تو ہم جانتے ہیں،’’ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہوگی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’جب تک ہم قحط کا اعلان کرتے ہیں اس وقت تک ہزاروں افراد پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ خطرے کی گھنٹیاں زور سے بج رہی ہیں۔‘‘
ہارن آف افریقہ میں یہ پانچواں موسم گزرا ہے جس میں کوئی بارش نہیں ہوئی۔ یوکرین میں جنگ اور اس کے بعد اناج کی ترسیل کی قلت نے اور خطے میں سیاسی ہلچل نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
اس خطے میں ممکنہ طور پر سال کے آخر تک دو لاکھ سے زائد افراد کے مرنے کا خطرہ ہے۔ اسی عرصے کے دوران اگر امداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا، تو تقریباﹰ نصف آبادی کے بھوک کا سامنا کرنے کا امکان ہے۔
بچوں کا غیر یقینی مستقبل
اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر مارٹن گریفتھس نے کہا ہےکہ کہ بدترین واقعات کو روکنے کے لیے صرف صومالیہ میں ایک ارب ڈالر سے زائد رقم کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے صومالی دارالحکومت موغادیشو پہنچنے پر گریفتھس نے اس حقیقت پر زور دیا تھا کہ غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے بچوں کو خاص طور پر خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دورے کے دوران ُان کا سامنا ایسے بچوں سے ہوا ہے جو اس قدر غذائی قلت کا شکار تھے کہ وہ بمشکل بول سکتے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق صومالیہ میں شدید غذائی قلت کے اثرات کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ہے کہ اس صدی میں ابھی تک کسی بھی ملک میں بچوں میں قحط کی یہ سطح نہیں دیکھی گئی ہے، اس سال غذائی قلت کی وجہ سے 700 سے زائد بچے پہلے ہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ دریں اثنا صومالیہ میں وبائی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں ہیضے کے تقریباﹰ 8400 اور خسرے کے تقریباﹰ 13ہزار مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
یوکرینی جنگ ۔ صومالیہ میں
صومالی دارلحکومت موغادیشو کے شمال میں تقریبا 7000 کلومیٹر کے فاصلے پر جاری یوکرینی جنگ شاید خوراک کے بحران کی موجودہ صورتحال میں تیزی آنے کی واحد سب سے بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ روسی حملے سے قبل صومالیہ نے اپنی 90 فیصد گندم یوکرین اور روس سے درآمد کی تھی۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ مستقبل میں اناج کی جو بھی ترسیلات ہو سکتی ہیں وہ اس میں ہارن آف افریقہ کو ترجیح دیتے رہیں گے۔ تاہم یہ جنگ اب بھی جاری ہے اور اس بات کی قطعی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ قرن افریقہ کا اناج کی ترسیل ترجیح بنیاد پر ہوسکے گی، خاص طور پر اس لیے کہ یوکرینی بندرگاہوں سے اناج کی تمام برآمدات روسی فوج کی نگرانی میں ہوتی ہیں۔
ماضی کے اسباق
صومالیہ کی موجودہ صورتحال میں دیگر عوامل کا عمل دخل بھی ہے۔ صومالیہ کی آبادی زیادہ تر گلہ بانی کرنے والوں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل ہے۔ اس معروضی صورتحال کی وجہ سے وہاں امداد کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے، جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
تاہم روکا نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایف آر سی نہ صرف دیگر ایجنسیوں بلکہ صومالیہ کی خانہ بدوش برادریوں کے ساتھ بھی مل کر کام کر رہی ہے۔ روکا نے کہا کہ نہ صرف بڑے پیمانے پر انسانی المیےکو روکنے کے لیے بلکہ ''ہارن آف افریقہ میں طویل مدتی حل‘‘ کے قیام کے لیے ’’عالمی رہنماؤں کو فوری طور پر سننا اور کارروائی کرنا ہو گی۔‘‘ بار بار خشک سالی کے باعث ریوڑ وں اور فصلوں کی تباہی کےسا تھ ساتھ ٹڈی دلوں کے حملے نے بھی 2019 ء سے ہارن آف افریقہ کو کمزور کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے منسوب ہیں۔ کووڈ انیس وبا سے مختلف اشیا ء کی رسد میں تعطلی سے بھی اس خطے میں صورتحال خراب ہوئی۔ الشہاب نامی عسکریت پسند گروہ کی قیادت میں یہاں سالوں سے جاری عکسریت پسندی نے صومالیہ اور اس کے ہمسایوں میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہے۔
تاہم صومالیہ میں اقوام متحدہ کے مستقل نمائندے ابوبکر داہر عثمان نے اس بات پر زور دیا کہ صرف انسانی امداد ہی صومالیہ میں قحط کا پائیدار حل فراہم نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ تکلیف میں ہیں ان کے لیے پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے انسانی امداد اور ترقی کے درمیان رشتے کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا آئی ایف آر سی کے صدر فرانسسکو روکانے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کو ماضی کی خامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ ''بحران کی بنیادی وجوہات‘‘ سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔
سیرتان سینڈرسن (ش ر، ر ب)