صومالیہ: بم دھماکے میں ایک درجن سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک
8 فروری 2021صومالیہ میں نئے صدر کے انتخاب کے مسئلے پر جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے اتوار کے روز سیاست دانوں کے درمیان ہونے والی ہنگامی مذاکرات ناکام ہوجانے کے فوراً بعد ہی سڑک کے کنارے ایک بم دھماکہ ہوا جس میں صومالیائی سکیورٹی فورسز کے کم از کم تیرہ اہلکار ہلاک ہوگئے۔
ایک اعلی فوجی افسر جنرل مسعود محمد نے بتایا کہ جلمدج ریاست کی علاقائی انٹلیجنس یونٹ کا قافلہ سڑک کے کنارے نصب کردہ بم کا نشانہ بن گیا۔ یہ قافلہ طوس مریب قصبے کی جانب جا رہا تھا، جہاں صومالیہ میں انتخابات میں ہونے والی تاخیر کے مسئلے پر سیاست دانوں کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
صدر محمد عبدالحئی محمد کی مدت کار کردگی کے اختتام سے چند دنوں قبل سنیچر کے روز ہونے والی یہ بات چیت کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی تھی۔
جنرل مسعود محمد نے بتایا ”ہمیں جلمدج صوبے میں اپنے تیرہ سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی افسوس ناک خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ایک دھماکے میں ان کی گاڑی تباہ ہوگئی۔"
ہلاک ہونے والوں میں صوبے کے ایک سینیئر انٹلیجنس افسر شامل تھے۔ شدت پسند اسلامی گروپ الشباب نے اپنے اندلس ریڈیو اسٹیشن سے نشر کیے گئے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دارلحکومت موغادیشو کے شمال میں واقع طوس مریب قصبے میں ملکی سیاسی رہنماوں کی میٹنگ کے دوران اس شدت پسند گروپ نے اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔
وقت پر انتخابات شاید نہیں ہوسکیں گے
صومالیہ میں نئے سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے مرکزی حکومت اور وفاقی ریاستوں کے درمیان گزشتہ کئی دنوں سے جاری بات چیت نا کام ہوگئی جس کے بعد آٹھ فروری کومجوزہ انتخاب کا انعقاد مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
کسی قرارداد کی منظوری کے بغیر ہی مذاکرات ٹوٹ جانے کی وجہ سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی انتہا پسندی اور بڑے پیمانے پر خوراک کی قلت کے مسئلے سے دوچار ہے۔
ملکی وزیر اطلاعات عثمان دوبے نے بتایا کہ علاقائی الیکشن کمیشنوں کے عملے کے حوالے سے معاہدہ نہیں ہوسکا اور صدر محمد عبدالحئی جمعے کے روز دارالحکومت موغادیشو واپس لوٹ گئے تھے۔
قانو ن سازوں کو 'مسئلے کے حل میں دلچسپی نہیں‘
عثمان دوبے کا کہنا تھا ”کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ حکومت نے تمام تنازعات پر بات چیت کرنے اور انہیں حل کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن ہمارے بعض بھائی اسے سمجھنے میں نا کام رہے اور انہوں نے مسئلے کو حل کرنے سے انکار کردیا۔" انہوں نے مزید کہا ”حکومت نے کافی لچک کا مظاہرہ کیا، مصالحت کرنے کی کوشش، نرم روی اختیار کی اور بات چیت کے لیے تیار تھی لیکن بعض رہنماوں نے ہمارے اس نرم رویے کا بے جا فائدہ اٹھانے کی کوشش۔ لیکن یہ نہیں ہوگا۔“
محمد عبد الحئی محمد دوسری مدت کے لیے عہدہ صدارت پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بعد میں قانون سازوں سے کہا کہ مصالحت کے لیے اب بھی ایک موقع باقی ہے۔ انہوں نے تاہم اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ محمد عبدالحئی کا کہنا تھا”اگر یہ بھی ناکام ہوجاتا ہے تو آگے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔"
صدر محمد عبدالحئی اور صومالیہ کے پانچ نیم خود مختار علاقوں کے رہنماوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا تھا جس کی رو سے سن 2020 کے اواخر اور سن 2021 کے اوائل میں انتخابات کرانے تھے۔ تاہم بعض قانون ساز انتخابی عمل کے طریقہ کار پر متفق نہیں تھے جس کی وجہ سے معاہدہ ٹوٹ گیا۔
صومالیہ سن 1969کے بعد پہلے براہ راست انتخابات پر غور کررہا تھا لیکن بعد میں بالواسطہ ووٹنگ سسٹم کا فیصلہ کیا گیا جس میں مختلف فرقوں کے سرداروں کے ذریعہ منتخب کردہ خصوصی مندوبین ملک کے قانون ساز وں کو منتخب کرتے ہیں اور یہی قانون ساز ملک کے صدر کا انتخاب
کرتے ہیں۔ تاہم صومالیہ کی پانچ وفاقی ریاستوں میں سے کم ازکم دو ریاستوں پنٹ لینڈ اور جبا لینڈ کے علاقائی حکام مذکورہ انتخابی نظام کے تحت بھی انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)