’ضرب عضب‘ نئے مرحلے میں داخل
29 جون 2015افغانستان کی سرحد سے ملحق پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان اور دیگر جنگجو گروہوں کے خلاف شروع کی جانے والی ’ضرب عضب‘ نامی فوجی کارروائی کو ایک برس بیت چکا ہے۔ ملکی فوج کے مطابق نوّے فیصد اہداف کو حاصل کیا جا چکا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی فوج اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گڑھ تصور کیے جانے والے علاقے شوال پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
ملکی فوج کے مطابق گزشتہ برس جون میں شروع کیے گئے اس آپریشن کے نتیجے میں کم از کم دو ہزار سات سو شدت پسندوں کو ہلاک ہو چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دوران شدت پسندوں کے آٹھ سو خفیہ ٹھکانوں کو بھی تباہ کیا جا چکا ہے۔ اس عسکری کارروائی کے نتیجے میں تین سو سے زائد فوجی ہلاکتیں بھی رونما ہوئیں ہیں۔
وادی شوال کی طرف پیشقدمی
اس عسکری کارروائی سے براہ راست وابستہ ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو تصدیق کی ہے کہ اب سپاہی حتمی زمینی پیشقدمی کی تیاری میں ہے لیکن اس سے قبل فضائی کارروائی کی جائے گی، ’’ہم فضائی بمباری کی مدد سے مشکل اہداف کو آسان بنائیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شوال میں زمینی کارروائی کے دوران جنگجوؤں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا۔‘‘
عینی شاہدین نے بھی شوال میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت کی تصدیق کی ہے۔ اسی تناظر میں کچھ قبائلی رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ جنگجو حکمت عملی کے تحت سرحدی علاقوں سے پسپا ہو کر افغانستان میں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک قبائلی رہنما عجب خان نے بتایا، ’’روزانہ کی بنیادوں پر دو درجن جنگجو اس علاقے سے فرار ہو رہے ہیں۔ کم ازکم دو سو جنگجو ابھی حال ہی میں افغانستان جا چکے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ جنگجوؤں نے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں مورچے بنا لیے ہیں اور وہ کسی فوجی کارروائی کے نتیجے میں سخت جواب دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
کامیابی کے لیے اصلاحات ناگزیر
سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں عسکری کارروائی سے مطلوبہ اہداف اس وقت مکمل طور پر حاصل نہیں کیے جا سکتے، جب تک ان نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں اقتصادی اور انتظامی سطح پر اصلاحات نہیں کی جاتیں۔ یہ امر اہم ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کا شمار پاکستان کے غریب ترین اور پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ وہاں وہی قوانین نافذ ہیں، جو ایک صدی قبل انگریزوں نے متعارف کرائے تھے۔
اسلام آباد میں قائم ’سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈیز‘ نامی ایک غیر سرکاری ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل کے مطابق جب تک ان قبائلی علاقوں میں رائج فرسودہ قانونی نظام کو ملکی قوانین سے تبدیل نہیں کیا جاتا، تب تک ان علاقوں کو جنگجوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔
سکیورٹٰی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کو قومی دھارے میں لائے بغیر کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عسکری کارروائی سے ملنے والی کامیابی صرف ایک حصہ ہے لیکن ان علاقوں سے بے گھر ہونے والوں کی مکمل بحالی اور ان کی اقتصادی ترقی کے بغیر مکمل کامیابی مشکل ہے۔
شفافیت پر سوالیہ نشان
ان قبائلی علاقوں میں جاری عسکری کارروائی کے شفاف ہونے کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستانی فوجی کی کارروائیوں سے شہری ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں لیکن ان علاقوں میں فوج کا مکمل کنٹرول ہے اور آزاد ذرائع سے معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے۔
پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن سے منسلک انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن آئی اے رحمان نے اے ایف کو بتایا، ’’ہم نہیں جانتے کہ اس عسکری کارروائی میں فوج کن افراد کو ہلاک کر رہی ہے۔ ہمیں ان ہلاکتوں کے بارے میں سچائی معلوم نہیں ہے۔ کتنے افراد مارے گئے، ان میں سے کتنے دہشت گرد تھے اور کتنے معصوم، یہ ہم نہیں جانتے۔‘‘ رحمان کے مطابق لوگوں کو ان قبائلی علاقوں تک رسائی حاصل ہونا چاہیے اور یہ فوجی آپریشن شفاف ہونا چاہیے۔