طالبات دنیا بھر میں نشانہ
10 فروری 2015یہ بات جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے ایک رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہی گئی ہے۔ رپورٹ پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے دفتر میں خواتین کے حقوق اور صنفی شعبے کی سربراہ ویرونیکا بِرگا نے کہا کہ جہاں تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں لڑکیوں پر کیے جانے والے اس طرح کے حملے زیادہ تر مذہب اور ثقافت کے نام پر کیے جا رہے ہیں، وہاں ایل سلواڈور اور دیگر لاطینی امریکی ممالک میں ان واقعات کا تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے پُر تشدد حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو زہر دینے اور اُن پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح بھارت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہاں 2013ء میں ایک مسیحی اسکول سے طالبات کو اغوا کیا گیا اور اُن کی آبرو ریزی کی گئی۔ مزید یہ کہ 2010ء میں مشرقی افریقی ملک صومالیہ میں نوجوان لڑکیوں کو اسکول سے نکال لیا گیا اور اُن کی جبری طور پر الشباب کے جنگجوؤں کے ساتھ شادی کر دی گئی۔
اس رپورٹ کے مطابق، ’’تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں لڑکیوں کے خلاف حملے تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں اور چند ایک ملکوں میں تو یہ ایک معمول بن چکے ہیں۔ زیادہ تر واقعات میں اس طرح کے حملے اُس تشدد، عدم مساوات اور امتیازی سلوک ہی کی ایک کڑی ہیں، جو ویسے بھی اُن معاشروں میں زیادہ پیمانے پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق 2009ء سے لے کر 2014ء تک کے درمیانی عرصے میں کم از کم ستّر ملکوں میں اس طرح کے بہت سے حملوں میں اغوا اور آبروریزی کے واقعات بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے دفتر میں خواتین کے حقوق اور صنفی شعبے کی سربراہ ویرونیکا بِرگا نے رپورٹ کے اجراء کے موقع پر صحافیوں کو بتایا، ’’یہ تمام حملے اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت مختلف سہی لیکن ان میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف گہری جڑیں رکھنے والا امتیازی رویہ۔‘‘
اُنہوں نے مزید بتایا کہ مالی، سوڈان، عراق، افغانستان اور پاکستان میں ’جنسی تشدد سمیت مختلف پُر تشدد ذرائع استعمال کرتے ہوئے اسکول طالبات کو مخصوص طرح کا لباس پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘۔ بِرگا کے مطابق کچھ حملے اس لیے کیے گئے کہ حملہ آور لڑکیوں کی تعلیم کو سماجی تبدیلی کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتے ہوئے اُس کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ دیگر میں اسکولوں کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کہ وہاں اُن کے خیال میں صنفی مساوات کا درس دیتے ہوئے مغربی اَقدار مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ویرونیکا بِرگا نے خبردار کیا کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی صورت میں نہ صرف اُن کے کم عمری میں ہی بیاہے جانے اور زبردستی شادی کے بندھن میں باندھے جانے کے خطرات بڑھ جائیں گے بلکہ وہ اُن گروہوں کا بھی زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، جو انسانوں کی تجارت کرتے ہیں یا پھر بچوں سے بیگار لیتے ہیں‘۔