طالبان، اعتماد کی کمی کا مقابلہ پبلک ریلیشن مہم سے
19 اگست 2021لیکن طالبان کو اپنا یہ'2.0 ورژن‘ بیچنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ طالبان کی سن 1996 سے 2001ء تک کی سخت حکمرانی اور گزشتہ بیس سالہ جنگ کے دوران ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی یادیں لوگوں کے اذہان سے چسپاں ہیں، خاص طور پر خواتین اور اقلیتیں اب بھی خوفزدہ ہیں۔
طالبان کی پبلک ریلیشن مہم
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اپنی پہلی عوامی پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا، ''نظریات اور عقائد میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لیکن تجربے، پختگی اور بصیرت کی بنیاد پر، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی تبدیلی آئی ہے۔‘‘
انہوں نے تقریبا سبھی ایسے موضوعات پر بات کی، جن کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ان کی طرف سے سبھی کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا، تعلیم اور ملازمت کی اجازت سمیت خواتین کو حقوق دینے کی بات کی گئی، میڈیا کو آزادی اور خودمختاری دینے کا اعلان کیا گیا اور یہ بھی یقین دہانی کروائی گئی کہ آئندہ حکومت میں ملک کے تمام نسلی، مذہبی اور اقلیتی گروہوں کو شامل کیا جائے گا۔
طالبان کی طرف سے یہ گارنٹی بھی دی گئی ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک یا قوم کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور یہ کہ وہ بین الاقوامی برادری کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
طالبان کے حیران کن اقدامات
انتہائی حیران کن اشاروں میں سے ایک یہ پیش رفت بھی تھی کہ طالبان نے اپنے نمائندے عاشورہ کی مجالس میں خیرسگالی کے طور پر بھیجے ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق افغانستان کی شیعہ کمیونٹی کے لیے سب سے مشکل دور طالبان کا سابقہ دور حکومت ہی تھا۔ دوسری جانب طالبان کی طرف سے یہ تمام یقین دہانیاں ایک انتباہ کے ساتھ کروائی جا رہی ہیں کہ ہر چیز اسلامی اصولوں اور ان کی طے کردہ تشریحات سے مطابقت رکھتی ہو گی۔
پچیس برس پہلے بھی جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا تو سبھی کے لیے ایسے ہی عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔ پچیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو اس وقت کے طالبان لیڈر ملا عمر کا کہنا تھا، ''ہم کسی بھی طرح کا بدلہ لینے پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘ اس کے دو دن بعد ہی طالبان نے سابق صدر محمد نجیب اللہ کو قتل کرتے ہوئے ان کی لاش کو گھسیٹا اور ایک کھمبے سے لٹکا دیا۔
وعدے اور اعتماد کی کمی
ایک طرف طالبان اعتدال پسندی کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایسی رپورٹیں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ طالبان جنگجوؤں نے کچھ صحافیوں کا ڈرایا دھمکایا ہے اور ملک کے کچھ حصوں میں خواتین کو یونیورسٹیوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ افغانستان کے پسماندہ علاقوں میں جنگجو عام لوگ کے ساتھ سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ کابل پر قبضے کے ایک ہفتہ پہلے ہی طالبان نے کابل حکومت کے میڈیا سینٹر کے سربراہ کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ بالکل وہی جگہ تھی، جہاں طالبان کے ترجمان آزاد صحافت کی ضمانت فراہم کر رہے تھے۔
خواتین کی تعیم کے حوالے سے قندھار میں ایک فلاحی تنظیم چلانے والی پشتانہ درانی کا برطانیہ کے چینل فور سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' طالبان کی پی آر بہت بہتر ہو چکی ہے۔ وہ انگلش بول سکتے ہیں اور انہیں بین الاقوامی میڈیا سے بات کرنا آ گیا ہے۔‘‘ لیکن ان کا مزید کہنا تھا، ''طالبان جو کچھ پریس کانفرنسوں میں کہہ رہے ہیں، اس سے بالکل مختلف ہے، جو وہ کر رہے ہیں، یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔‘‘ پشتانہ درانی کا کہنا تھا، ''حقیقت یہ ہے کہ وہ نہیں بدلے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں۔‘‘
حیققت آئندہ کا وقت بتائے گا
طالبان کی طرف سے یقین دہانیوں کے باوجود صورتحال یہ تھی کہ جب وہ کابل میں داخل ہوئے تو عوام سہمے ہوئے تھے، لوگوں نے ناامید ہو کر ملک چھوڑنے کے لیے ایئرپورٹ کا رخ کیا۔ زیادہ تر خواتین خوف سے گھروں میں چھپ گئیں۔ وہ افغان ابھی تک خوفزدہ ہیں، جو مغربی سفارت خانوں یا پھر مغربی اداروں اور فوج کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کو ابھی بین الاقوامی دنیا کی حمایت حاصل کرنا ہو گی اور وہ حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ طالبان کو ابھی تک روس اور چین سے ہی مثبت اشارے ملے ہیں جبکہ پاکستان اور ایران کے پہلے سے ہی ان کے ساتھ تعلقات موجود ہیں۔
افغانستان کی معیشت کا انحصار بھی گزشتہ بیس برسوں سے بین الاقوامی امداد پر ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کو بین الاقوامی امداد اسی صورت میں ملے گی اگر وہ اپنے وعدے پورے کریں گے۔ بدھ کے روز برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا اپنے اور اپنے اتحادی ملک امریکا کے حوالے سے کہنا تھا، ''ہم طالبان حکومت کے بارے میں کوئی فیصلہ اس کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے کریں گے، لفظوں کی بجائے اعمال کو دیکھا جائے گا۔‘‘
ا ا / ع ح ( اے ایف پی)