'طالبان خواتین کے حقوق پامال کر سکتے ہیں'، امریکی رپورٹ
5 مئی 2021امریکا میں افغان خواتین کے حقوق سے متعلق چار مئی منگل کے روز جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی قیادت والی بیرونی افواج کے ملک سے نکل جانے کے بعد ملک میں خواتین کے حقوق کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
امریکی خفیہ ادارے 'یو ایس نیشنل انٹیلیجنس کونسل' نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر طالبان نے ملک کا اقتدار دوبارہ حاصل کر لیا تو، ''گزشتہ دو عشروں کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بیشتر حصے کو وہ پیچھے دھکیل دیں گے''
دو صفحات پر مشتمل اس تازہ رپورٹ میں سن 1996 سے 2001 کے درمیان طالبان کے اس کے دور اقتدار میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے سخت سلوک کا حوالہ دیا گیا ہے جب بیشتر خواتین کو گھروں کی چہار دیواری تک محدود کر دیا گیا تھا اور بچیوں کو تعلیم تک رسائی بھی میسر نہیں تھی۔ خواتین پر کسی رشتہ دار مرد کے بغیر باہر جانے پر بھی پابندی عائد تھی۔
امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک کی قیادت میں گزشتہ بیس برسوں کے دوران افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی اس سے کچھ حاصل ہو یا نہ ہو تاہم سب سے بڑی کامیابی یہی بتائی جاتی ہے کہ اس دوران ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی خود مختاری میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ حالانکہ یہ کامیابی بھی صرف بعض شہری علاقوں تک ہی محدود رہی۔
بیرونی افواج کا افغانستان سے انخلا کب تک ہو جائیگا؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے جو نئی تاریخ مقرر کی ہے اس کے مطابق تمام بیرونی افواج کو اس برس گیارہ ستمبر تک افغانستان سے نکل جا نا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی امریکی انتظامیہ کا اس بات پر بھی زور ہے کہ افغانستان کے ساتھ ان کے روابط اور تعلقات جاری رہیں گے اور انسانی حقوق کی پاسبانی کے لیے بھی وہ بھر پر کوششیں کرتے رہیں گے۔
گزشتہ ماہ طالبان نے بھی خواتین سے متعلق ایک بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ افغان خواتین بھی، ''صحیح طریقے سے اسلامی حجاب کی پابندی کرتے ہوئے شعبہ تعلیم، کاروبار، صحت اور سماجی میدان میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔''
حالانکہ امریکی رپورٹ میں اس بات کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے کہ چونکہ طالبان کے اندر خود ہی خواتین کی قیادت برائے نام ہے اس لیے انہوں نے خواتین سے متعلق جو وعدے کیے ہیں اس بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
اس تجزیاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق میں پیش رفت کے لیے، '' شاید گھریلو سطح کی حمایت سے زیادہ بیرونی دباؤ کی ضرورت ہو گی کیونکہ ایسا محسوس ہوتا کہ اگر طالبان یہ پالیسی واپس نہ لیں تو بھی بیرونی افواج کے انخلا کے بعد اس پر خود بخود خطرہ منڈ لانے لگے گا۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)