طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا عہد نہیں کیا، اشرف غنی
1 مارچ 2020امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل پر دستخطوں کے ایک دن بعد آج اتوار یکم مارچ کو افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ طالبان اور امریکا کے مابین براہ راست مذاکرات کو طالبان کی رہائی سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اور طالبان کے مابین ہفتہ انتیس فروری کو طے پانے والی تاریخی امن ڈیل میں قیدیوں کی دوطرفہ رہائی ایک اہم نکتہ ہے۔
اس ڈیل میں طالبان کی حراست میں ایک ہزار افغان سرکاری اہلکاروں کو آزاد کرنے کے بدلے افغان جیلوں میں قید پانچ ہزار طالبان کو رہا کر دینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ اس ڈیل کو حتمی شکل دیتے ہوئے طالبان کا یہ ایک اہم مطالبہ تھا۔
صدر غنی کے مطابق افغان حکومت اس ڈیل کا حصہ نہیں ہے البتہ اس کا ایک وفد اس موقع پر دوحہ میں موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق طے پائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ایک 'امریکی کٹھ پتلی‘ ہے، اس لیے اس سے براہ راست مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔
صدر غنی کے مطابق افغانستان میں داخلی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ زیر بحث لایا جا سکتا ہے لیکن یہ امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کی کوئی شرط نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کی رہائی کا فیصلہ 'امریکی اتھارٹی‘ میں نہیں آتا بلکہ یہ فیصلہ خود افغان حکومت کو کرنا ہو گا۔
تاہم صدر غنی نے تصدیق کی کہ اس ڈیل کے تحت افغانستان میں تشدد میں کمی کی خاطر سات روزہ جزوی فائر بندی پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مقصد یہی ہے کہ مکمل سیزفائر کو ممکن بنایا جائے۔
اس امن ڈیل کے تحت افغانستان متعینہ امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ اس وقت افغانستان میں تقریباﹰ تیرہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ابتدائی طور پر ان میں سے آٹھ ہزار چھ ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا بھی طالبان کا ایک مرکزی مطالبہ تھا۔
امریکا اور افغانستان نے اس ڈیل کو ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے افغانستان میں پائیدار قیام امن میں مدد ملے گی۔ اس ڈیل کے ساتھ افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔