طالبان کابل کے قریب، صدر اشرف غنی کا قوم سے خطاب
14 اگست 2021افغان صدر اشرف غنی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر وہ مقامی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ ہنگامی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اشرف غنی کا ٹیلی وژن پر مختصر خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ''آپ کے صدر کی حیثیت سے میری توجہ مزید عدم استحکام، تشدد اور میرے لوگوں کی نقل مکانی روکنے پر ہے۔''
تاہم افغان صدر نے طالبان کے اس مطالبے کا جواب نہیں دیا کہ جنگ بندی اور سیاسی تصفیہ پر کسی بھی مذاکرات کے لیے انہیں استعفیٰ دینا ہو گا۔ قبل ازیں ایسی افواہیں گردش میں تھیں کہ اشرف غنی مستعفی ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''سکیورٹی اور دفاعی افواج کا دوبارہ انضمام ہماری ترجیح ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔''
طالبان کا مزید شہروں پر قبضہ
ان کا اپنی عوام سے خطاب اس وقت نشر کیا گیا ، جب طالبان نے صوبہ لُوگر کے دارالحکومت پُلِ عَلَم پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ شہر دارالحکومت کابل سے تقریبا ستر کلومیٹر کی دوری پر ہے اور اس جنوبی شہر کو کابل کے لیے ایک گیٹ وے بھی قرار دیا جاتا ہے۔
صوبائی کونسل کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طالبان کو پلِ عَلَم میں کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پل عَلَم انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے اور اس پر قبضہ کرتے ہوئے کابل پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب گزشتہ روز ہی طالبان نے ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہروں پر قبضہ کیا تھا۔ نیوز ایجنسی اے پی کی ہی اطلاعات کے مطابق طالبان دارالحکومت سے گیارہ کلومیٹر دور ایک مقام پر بھی ملکی سکیورٹی فورسز سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء مشرقی صوبے پکتیکا کے قانون ساز خالد اسد نے نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتے کو طالبان نے پکتیکا کے دارالحکومت شرنہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ صوبہ پاکستان کی سرحد سے ملحق ہے۔
مغربی ممالک کے سفارتی عملے کا انخلاء
افغان صدر اشرف غنی نے ایک ایسے وقت میں مختصر خطاب کیا ہے، جب امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے کابل سے اپنا سفارتی عملہ نکالنے کا عمل تیز تر کر دیا ہے۔ امریکا نے اپنے سفارتی عملے کی حفاظت کے لیے تقریبا تین ہزار اہلکار کابل بھیجے ہیں۔ اسی طرح فرانس اور برطانیہ نے بھی فوجی روانہ کر دیے ہیں تاکہ کابل کو جلد از جلد طالبان کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جا سکے اور سفارت کاروں کو بحفاظت باہر نکالا جا سکے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق متعدد سفارت خانوں نے انخلاء سے پہلے حساس معلومات پر مبنی مواد جلانا شروع کر دیا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے امریکی سفارت خانے کا ایک ایسا حکم نامہ بھی دیکھا ہے، جس میں الیکڑک ڈیوائسز سمیت تمام حساس مواد جلانے کا کہا گیا ہے تاکہ سفارت خانے میں حساس مواد کی تعداد کم کی جا سکے۔
ا ا /ع ح (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)