طالبان کا ترکی امن کانفرنس میں شرکت سے انکار
13 اپریل 2021امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس سے قبل کہا تھا کہ امریکا چاہتا ہے کہ ترکی کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس، جس میں طالبان اور افغان حکومت دونوں کے اعلیٰ عہدے دار شرکت کریں گے، میں افغانستان کے متحارب فریق کسی امن معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک آڈیو پیغام ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسلامی امارت (طالبان) منصوبے کے مطابق اس ہفتے ترکی میں ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا، ہم اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔ ترجمان نے بعد میں آڈیو پیغام کو ایک واٹس ایپ گروپ میں بھی شیئر کیا ہے۔
امریکی اور ترک حکام کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ جمعہ سولہ اپریل سے کانفرنس کا آغاز ہو جائے۔ یہ کانفرنس دس روز چلے گی۔
اس کانفرنس کے لیے کوئی نئی تاریخ طے نہیں کی گئی لیکن تقریباً ایک برس سے زیادہ عرصہ قبل ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے لیے یکم مئی کی آخری تاریخ کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ امریکا کے اس طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کے اپنے وعدے پر قائم ہیں تاہم امریکا افواج کی واپسی میں تین تا چھ ماہ کی توسیع چاہتا ہے۔
طالبان نے اب تک انخلاء کی مدت میں کسی طرح کی توسیع کو مسترد کر دیا ہے اور مقررہ وقت تک افواج واپس نہیں بلانے پر'نتائج‘ کی دھمکی دی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے گزشتہ ماہ طالبان اور افغان حکومت دونوں کو آٹھ صفحات پر مشتمل ایک امن تجویز کا مسودہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس پر غور وخوض کریں اور ترکی میں کسی معاہدے پر متفق ہونے کے لیے تیار ہوکر آئیں۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا ہے کہ ترکی امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا، ہم اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔
بلنکن کے مذکورہ امن منصوبے کے مسودے میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا اور آئین میں ترامیم کی تجویز شامل تھیں۔ اس میں ایک عبوری حکومت قائم کرنے کو بھی کہا گیا تھا جس کا نام 'امن حکومت‘ ہوگا۔ منصوبے کے مطابق ایک اسلامی مشاورتی کونسل بھی قائم ہوگی جو تمام قوانین کو اسلامی عقائد کے مطابق رکھنے کے حوالے سے تجاویز دینے کی ذمہ دار ہوگی۔ یہ بظاہر طالبان کو رعایت دینے کی کوشش ہے۔
افغان صدر اشرف غنی، جو الگ تھلگ پڑتے جارہے ہیں، نے بھی اگلے چند ماہ کے دوران افغانستان میں انتخابات کے انعقاد تک ایک عبوری حکومت کے قیام کی بلنکن کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ لیکن طالبان نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اشرف غنی کی سربراہی والی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز پر اپنے موقف کا ابھی اظہار نہیں کیا ہے۔
بلنکن نے صدر اشرف غنی اور دوسرے رہنماؤں کو دوٹوک الفاظ میں خط لکھ کر ترکی امن کانفرنس کا اعلان کیا تھا۔ اس خط میں انہوں نے خبر دار کیا تھا کہ کسی سیاسی تصفیے کے بغیر امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کے نتیجے میں غنی حکومت کمزور ہو جائے گی جس کا فائدہ طالبان کو ہو گا۔ انہوں نے خط میں لکھا تھا''مجھے تشویش ہے کہ سلامتی کی صورت حال خراب ہو جائے گی اور طالبان کو مختلف علاقوں میں قدم جمانے کا موقع مل جائے گا۔"
دریں اثنا افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیرزلمے خلیل زاد نے گزشتہ چاردنوں تک کابل میں قیام کے دوران حکومتی عہدیداروں، سول سوسائٹی کے رہنماوں اور دیگر افراد سے ملاقاتیں کیں اور فریقین سے امن مساعی کو تیز کرنے پر زور دیا۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز)