1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا نیا عسکری سربراہ کون ہے؟

1 ستمبر 2016

افغانستان میں اپنی عسکری کارروائیوں کے پھیلاؤ کے لیے طالبان نے اپنے نئے عسکری سربراہ کا تقرر کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ملا ابرہیم صدر سابقہ طالبان کمانڈر سے مختلف کیسے ہو گا؟

https://p.dw.com/p/1Jte9
Taliban Afghanistan Friedensprogramm
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzad

طالبان نے ملا ابرہیم صدر کو نیا عسکری سربراہ مقرر کیا ہے۔ یہ تقرری ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب عسکریت پسند افغانستان کے متعدد صوبوں پر کنٹرول کے لیے اپنی کارروئیاں وسیع کر چکے ہیں۔ اس گروہ کو دوسری جانب داعش سے خطرات بھی لاحق ہیں، جو اب متعدد افغان علاقوں میں قدم جمانے کی کوششوں میں ہے۔ کیا صدر اپنے عسکری گروپ کی جانب سے طے کردہ اہداف حاصل کر پائے گا؟ اور کیا وہ ’داعش‘ سے لاحق چیلنجز کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے؟

اس حوالے سے کابل میں مقیم ماہر واحد مژدہ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا، ’’صدر کا تعلق جنوبی افغان صوبے ہلمند سے ہے اور وہ دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح پشتون ہے۔ وہ طالبان تحریک میں کئی برسوں سے فعال کردار ادا کر رہا ہے اور وہ خاصا عسکری تجربہ بھی رکھتا ہے۔

Pakistan Islamischer Staat Führer Hafiz Saeed
داعش بھی افغانستان کے متعدد مقامات پر خاصی فعال ہو چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/TTP

طالبان کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے والی ایک تنظیم سے وابستہ واحد مژدہ نے مزید کہا، ’’مجھے تعجب ہوا، جب یہ میڈیا رپورٹیں سامنے آئیں کہ طالبان نے اسے عسکری سربراہ مقرر کیا ہے۔ کیوں کہ وہ گزشتہ دو برس سے یہ ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھا۔ اسے گروہ کا عسکری سربراہ اس وقت مقرر کیا گیا تھا، جب ملا منصور اختر طالبان کی سربراہی کر رہا تھا۔ طالبان کی زیادہ تر عسکری سرگرمیوں کی نگرانی صدر ہی کرتا آیا ہے۔‘‘

مژدہ کا کہنا ہے کہ سن 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے صدر اعلیٰ کمانڈر کے طور پر کام کرتا آیا ہے۔ ’’وہ صرف ملا عمر ہی کے قریب نہیں تھا بلکہ ملا اختر منصور سے بھی بہت قربت رکھتا تھا۔ پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد جب طالبان نے ملا ہیبت اللہ کو اپنا سربراہ مقرر کیا، تو ملا صدر نے اس کی بھی وفاداری کا عہد کیا۔‘‘

اس بات کے جواب میں کہ صدر کو کس درجے کا جنگی تجربہ حاصل ہے اور طالبان کی جانب سے اس کی تقرری کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، مژدہ کا کہنا تھا، ’’اس عہدے پر طالبان کا صرف وہی رکن تعینات ہو سکتا ہے، جسے زیادہ عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہو اور جو لڑنے والے جنگجوؤں میں زیادہ مقبول ہو۔ گزشتہ کئی برسوں سے صدر قندھار اور ہلمند میں جہادی سرگرمیوں کی سربراہی کر رہا ہے اور اسے اعلیٰ طالبان قیادت بھی عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

مژدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے صدر طالبان کی عسکری کونسل کا اہم ترین رکن ہے۔ ’’وہ حالیہ کئی اہم عسکری فیصلوں میں شامل تھا۔ اس لیے یہ کہنا تو ممکن نہیں ہو گا کہ اس تقرری سے طالبان کی حکمتِ عملی میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔ یہ بات ضروری ہے کہ طالبان کی عسکری کارروائیوں کے فیصلے کمانڈر انفرادی سطح پر نہیں کرتے بلکہ ان کا فیصلہ عسکری کونسل کرتی ہے۔