طالبان کی مدد کس نے کی؟ امریکی سینیٹرز کا تحقیقات کا مطالبہ
29 ستمبر 2021واضح رہے کہ ان امریکی سینیٹرز نے منگل کو یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کو ملنے والی لاجسٹک سپورٹ، میڈیکل سہولیات اور مختلف نوعیت کی دوسری معاونتوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داران کے خلاف پابندیاں لگنی چاہئیں۔
’قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش‘
افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد پاکستان میں کئی حلقوں کا یہ خیال تھا کہ اب پاکستان کو 'قربانی کا بکرا‘ بنایا جائے گا۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے ایک حالیہ کالم میں اس بات کا تذکرہ کیا اور یہ اشارہ دیا کہ پاکستان کو 'قربانی کا بکرا‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کر کے چھوڑا اور پھر اس کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگائی گئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''بائیس سینیٹرز کی طرف سے اس طرح کا مطالبہ دراصل پاکستان کو بلیک میل کرنے اور قربانی کا بکرا بنانے کی سازش ہے۔ ایک طرف تفتیش کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور پابندیوں کی دھمکی دی جا رہی ہیں، تو دوسری طرف ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں، میرے خیال میں ممکنہ طور پر وہ مطالبہ کریں گے کہ پاکستان چین سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے، سی پیک ختم کرے اور امریکا کو فضائی اڈے دے۔‘‘
ڈاکٹر طلعت اے وزا رت کے مطابق افغانستان میں شکست امریکا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''امریکا کو یہ معلوم ہے کہ اس کی عسکری بالادستی کے دن ختم ہو رہے ہیں۔ وہ معاشی طور پر بھی کمزور ہو رہا ہے اور ایسے میں افغانستان کی شکست نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ امریکا کی عسکری بالادستی مضبوط نہیں ہے۔ تو وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بالادستی ختم نہیں ہوئی۔‘‘
ڈاکٹر طلعت وزارت کا کہنا ہے کہ اگر امریکا کو واقعی کوئی تحقیق کرنی ہے تو اسے اس بات کی تحقیق کرنا چاہیے کہ کس طرح لاکھوں کی افغان فوج ساٹھ، ستر ہزار طالبان کے سامنے ڈھیر ہو گئی؟ وہ کہتے ہیں، ''اس بات پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ دو ٹریلین ڈالرز سے زیادہ جو خرچ ہوا ہے، اس میں کس کس امریکی کمپنی اور عہدے دار نے فائدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ کون کون سے افغان سیاستداں اور عسکری حکام تھے، جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا؟ بھارت نے جس طرح افغان فوجی افسران کی تربیت کی، اس پر بھی سوال اٹھنا چاہیے اور سوال یہ بھی ہونا چاہیے کہ امریکا نے افغانستان سے کتنی لوٹ مار کی اور جنگ زدہ ملک کے قدرتی خزانوں کو کس حد تک لوٹا گیا؟‘‘
’دباؤ کے ہتھکنڈے‘
معروف دفاعی مبصر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹرز کا مطالبہ امریکا کی طرف سے دباؤ کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے امریکا کو تمام طرح کی لاجسٹک سپورٹ دی۔ اس کو ہوائی اڈے استعمال کرنے دیے اور تین امریکی صدور نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون کیا۔ اب یہ کہنا کہ پاکستان نے ڈبل گیم کیا ہے، انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہ صرف دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈے ہیں، جس سے پاکستان مرعوب نہیں ہو گا۔‘‘
’پاکستان دباو برداشت کر سکتا ہے‘
میجر جنرل اعجاز اعوان کے بقول علاقائی تعاون اور چین سے قریبی تعلقات کی بدولت پاکستان تمام طرح کے دباؤ کا سامنا کر سکتا ہے، ''پاکستان، روس، چین اور ایران کو مل کر افغانستان میں استحکام لانا چاہیے۔ خطے میں تجارت کو بڑھانا چاہیے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کرنا چاہیے اور مشترکہ دفاعی معاہدہ بھی کرنا چاہیے تاکہ ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہو۔‘‘
پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ؟
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ مطالبہ اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان کے لیے برے دن آرہے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے پاکستان کے حکمران طبقے نے کھلم کھلا اعلان کیا کہ وہ طالبان کو میڈیکل سمیت کئی سہولیات فراہم کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سینیٹرز کے مطالبے سے واضح طور پر یہ لگتا ہے کہ امریکی پاکستان سے سخت ناراض ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ملا عمر سمیت افغان طالبان کے کئی لوگوں کو میڈیکل سہولیات فراہم کیں۔ حقانی نیٹ ورک کو بھی میڈیکل اور رہائش کی سہولت فراہم کی اور اب امریکا انہی بیانات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا اور ممکنہ طور پر پاکستان پر پابندیاں عائد کرے گا۔‘‘
سرفراز خان کے بقول فوری طور پر عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی قسطوں میں تاخیر ہو سکتی یا انہیں روکا بھی جا سکتا ہے، جس سے پاکستان میں معاشی بحران آ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''امریکا نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں اور دہشت گردی کی جنگ کے خلاف کافی پیسہ دیا ہے۔ امریکی سیاسی نظام میں ایسا نہیں ہے کہ وہاں حساب کتاب کی بات نہ کی جائے۔ وہ ہمارے ملک کی طرح کچھ اداروں کو لامحدود کو اختیارات نہیں دیتے۔ امریکا نے اگر جنگ میں پیسہ خرچ کیا ہے تو اس کا حساب کتاب بھی ہو گا۔‘‘