طالبان کے خلاف جنگ میں افغان فورسز کی تشکیل نو
25 جنوری 2016افغانستان میں تعینات امریکی بریگیڈیئر جنرل وِلسن شوفنر نے پیر پچیس جنوری کے روز کہا کہ جنوبی افغانستان میں طالبان کے خلاف برسرپیکار فورسز کے متعدد کمانڈروں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں افغان فوج کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس موسم خزاں سے ہلمند میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ بتایا گیا ہےکہ اس صوبے کے قریب دس اضلاع اس وقت اس لڑائی کی لپیٹ میں ہیں۔ کہیں کہیں عسکریت پسندوں نے فوجی چوکیوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے، جب کہ کچھ مقامات پر طالبان قابض بھی ہیں، جن کو پسپا کرنے کے لیے افغان فوجی دستے کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
مقامی حکومتی اہلکار متعدد مرتبہ مرکزی حکومت سے عوامی سطح پر مدد کی اپیل کے ساتھ ساتھ وہاں لڑنے والی فوج میں بدعنوانی کے خلاف بھی آواز اٹھا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متعدد کمانڈر فوجیوں کی تنخواہوں، خوراک، ایندھن اور آلات کی چوری میں مصروف ہیں۔
افغانستان میں تعینات نیٹو کے عوامی رابطوں کے شعبے کے سربراہ امریکی بریگیڈیئر جنرل ولِسن شوفنر نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب ہلمند میں افغان فورسز کی ’تشکیل نو‘ کا کام مکمل ہو چکا ہے اور متعدد سینیئر افسران تبدیل کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان تبدیلیوں کی وجہ افغان فوج کی 215 میوند کور میں پائی جانے والی کرپشن اور نااہلی بنی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کور کے کمانڈر کو تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ’متعدد بریگیڈیئر کمانڈر اور کرنل‘ بھی تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
پاکستانی سرحد کے ساتھ لگنے والا افغان صوبہ ہلمند طالبان کا ایک مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ افیون کی کاشت کے اعتبار سے بھی سرفہرست ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں قریب تین ارب ڈالر سالانہ مالیت کی افیون کاشت کی جاتی ہے، جو ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے اور جو عسکریت پسندوں کی مالی اعانت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔