طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کابل حکومت کی شرائط
27 دسمبر 2011کابل حکومت کی امن کونسل نے کہا ہے کہ امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے قطر میں طالبان کا رابطہ دفتر قبول ہے، لیکن افغان حکومت کی رضامندی کے بغیر کوئی بیرونی طاقت اس عمل میں شریک نہیں ہوگی۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل نے یہ باتیں کابل میں غیر ملکی سفارت خانوں کو بھیجے گئے ایک نوٹ میں کہی ہیں، جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ضوابط بھی درج ہیں۔ یہ گیارہ نکاتی نوٹ خبر رساں ادارے روئٹرز کو دستیاب ہوا ہے۔
کابل حکام کی جانب سے یہ پیش رفت اس تشویش پر سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور قطر جرمنی کی مدد سے خفیہ طور پر طالبان سے دوحہ میں ان کے رابطہ دفتر کے قیام پر اتفاق کر چکے ہیں۔
امریکی حکام رواں برس طالبان کے رہنما ملا عمر کے نمائندوں کے ساتھ تقریباﹰ آدھی درجن ملاقاتیں کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جرمنی اور قطر میں ہوئیں۔ ان کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا۔
اس گروہ کے رابطہ دفتر کو ایسے مذاکرات کا نقطہء آغاز خیال کیا جاتا ہے اور دوحہ ماضی میں ابتدائی رابطوں کے لیے میزبانی کر چکا ہے۔
تاہم افغان امن کونسل کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اسی وقت شروع ہو سکتے ہیں، جب وہ شہریوں کے خلاف تشدد ترک کر دیں، دہشت گرد گروہ القاعدہ کے ساتھ روابط منقطع کریں اور اس افغان آئین کو تسلیم کریں جو خواتین کے حقوق سمیت شہری حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے۔
امن کونسل کے مطابق طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کے امن عمل کے لیے پاکستان کی حمایت بھی حاصل کرنا ہو گی کیونکہ طالبان کے ارکان وہیں (پاکستان) پر ہیں۔
اس کونسل کا کہنا ہے کہ کابل حکومت سعودی عرب یا ترکی میں طالبان کے رابطہ دفتر کے قیام کو ترجیح دے گی۔ روئٹرز کے مطابق کابل حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا ہے: ’’ہم کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب یا ترکی کو ترجیح دی جائے گی، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ دفتر ہر صورت میں وہیں ہونا چاہیے۔ اس کی واحد شرط یہ ہے کہ یہ دفتر کسی اسلامی ملک ہی میں ہو۔‘‘
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: امجد علی