1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے قيد خانوں ميں قيديوں پر تشدد اور ان کا قتل

26 مئی 2019

ايک ايسے وقت پر کہ جب افغان امن عمل زور و شور سے جاری ہے، اقوام متحدہ نے ايک تازہ بيان ميں افغان طالبان کی جانب سے قيد خانوں ميں قيديوں پر تشدد کی رپورٹوں پر گہری تشويش ظاہر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3J64L
Afghanistan Tora Bora Gefangene Taliban Kämpfer
تصویر: Getty Images/C. Hondros

اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گيا ہے کہ افغانستان ميں طالبان کے قيد خانوں ميں موجود افراد کے ساتھ کافی برا سلوک کيا جاتا ہے اور انہيں تشدد کا نشانہ بھی بنايا جاتا ہے۔ عالمی ادارے نے يہ انکشاف اتوار چھبيس مئی کو جاری کردہ ايک بيان ميں کيا ہے۔ ’يو اين اسسٹنس مشن ان افغانستان‘ (UNAMA) کے مطابق يہ انکشاف طالبان کی قيد سے چھڑائے جانے والے تيرہ افغانوں سے جمع کردہ شواہد و بيانات کی بنياد پر کيا گيا ہے۔

افغان طالبان کے بارے ميں يہ بيان ايک ايسے وقت پر سامنے آيا ہے، جب افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد کی قيادت ميں امن عمل جاری ہے۔ امريکی اور طالبان نمائندگان کے مابين بات چيت کے کئی ادوار منعقد ہو چکے ہيں۔ مذاکرات ميں افغانستان سے غير ملکی افواج کے انخلاء کے وقت سميت کئی امور زير بحث ہيں۔ بين الاقوامی برادری کا سب سے اہم مطالبہ يہی ہے کہ غير ملکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان دہشت گرد قوتوں کو ملک ميں زور پکڑنے نہيں ديں گے۔

افغانستان کے ليے اقوام متحدہ کے خصوصی مشن کی جانب سے جاری کردہ بيان ميں بتايا گيا ہے کہ تشدد کے بارے ميں اطلاع دينے والے جن تيرہ قيديوں سے بات چيت کی گئی وہ اس ترپن رکنی گروپ کا حصہ  تھے جسے حال ہی ميں طالبان کی قيد سے بازياب کرايا گيا ہے۔ اس گروپ ميں افغان فوجيوں و سرکاری اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے اور ان سب کو پچيس اپريل کے روز صوبہ اروزگاں ميں کی گئی ايک کارروائی ميں آزاد کرايا گيا تھا۔

 ’يو اين اسسٹنس مشن ان افغانستان‘ (UNAMA) کے سربراہ نے اپنے بيان ميں کہا، ’’برے سلوک، تشدد، شہريوں کے غير قانونی قتل اور قيد خانوں کی ابتر حالت کے الزامات پر ميں گہری تشويش ميں مبتلا ہوں۔‘‘ قيديوں کو ہتھکڑياں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور تقريباً تمام ہی کو باقاعدگی سے مارا پيٹا بھی جاتا تھا۔ طالبان ان سے يہ کہتے تھے کہ يہ سب امريکيوں اور کابل حکومت کی حمايت کرنے کی سزا ہے۔

افغان جنگ ميں امريکا کے تيئس سو فوجی اپنی جانيں کھو چکے ہيں جبکہ اس پر اب تک کئی بلين ڈالر خرچ کيے جا چکے ہيں۔ اب بھی چودہ ہزار امريکی فوجی افغانستان ميں تعينات ہيں۔ سکيورٹی ماہرين کا اب بھی کہنا ہے کہ سلامتی کے حوالے سے افغانستان کی صورتحال اب بھی خطرے سے خالی نہيں۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں