طرابلس میں زندگی معمول کی جانب لوٹ رہی ہے
14 ستمبر 2011معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب طرابلس میں بازار کھل گئے ہیں اور وہاں خریداروں کی بھی چل پہل ہے۔ بینکوں نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔ بجلی اور پانی کی فراہمی کا نظام بھی بحال ہو گیا ہے جبکہ تیل کی پیداوار بھی پھر سے شروع ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر باتیں کرتے ہوئے ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا: ’’طرابلس کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہوئے ہم نے دراصل یہ سوچا تھا کہ صورتِ حال اس سے زیادہ بری رہے گی۔‘‘
گو کہ معمول کی زندگی کی جانب لوٹنا خوش آئند ہے، لیکن قذافی کے بیالیس سالہ دورِ اقتدار میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے لیبیا کا یہ نیا چہرہ ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ ان کے چاروں طرف قذافی کے مفرور فوجیوں کا چھوڑا ہوا اسلحہ بکھرا پڑا ہے۔ بیشتر لوگوں کے لیے اس تبدیلی کے خوش آئند پہلوؤں میں سے ایک آزادئ اظہار رائے ہے۔ قذافی کے دَور میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور انتخابات کا انعقاد ممنوع تھا۔ اس لیے سیاسی آزادی بھی عوام کے لیے ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی مانند ہے۔
قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل کے حالیہ دورہ طرابلس پر بھی مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو طرابلس پر قذافی مخالف فورسز کے کنٹرول کے بعد پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے۔ روئٹرز کے مطابق عبدالجلیل کو طرابلس میں اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق مشرقی علاقے سے ہے۔
سابق پائلٹ محمد سعدی کا کہنا ہے کہ این ٹی سی کے سربراہ کی طرابلس آمد پر انہیں بہت سکون ملا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’قذافی ملک کو آٹھ حصوں میں بانٹنا چاہتے تھے، لہٰذا جلیل کی آمد سے اتحاد قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔‘‘
ڈرامہ پروڈیوسر ابراہیم محمد کا کہنا ہے کہ طرابلس میں زندگی پچاس فیصد تک معمول کی جانب لوٹ چکی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’لوگ تنخواہیں وصول کرنے کے لیے بینکوں کا رُخ کر رہے ہیں، علاج کے لیے ہسپتالوں کو جا رہے ہیں۔ ایندھن دستیاب ہے۔ جہاں تک جلیل کی بات ہے، یہ تو ٹھیک ہے کہ ان کا تعلق مشرقی علاقے سے ہے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ لیبیا کے شہری ہیں۔‘‘
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: امجد علی