طعنوں سے تنگ آکر بہن کو مار ڈالا، قندیل بلوچ کی والدہ
28 جولائی 2016پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں سوشل میڈیا پر اپنی ’بے باک‘ سیلفیوں اور ویڈیوز کے باعث شہرت حاصل کرنے والی پاکستانی خاتون قندیل بلوچ کی اس ماہ کے آغاز میں ناگہانی ہلاکت کے بعد پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے خلاف سخت قوانین متعارف کرانے کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گیا ہے۔
شاہ سردار دین گاؤں میں قندیل بلوچ کی والدہ انور مائی نے نیوز ایجسنی اے ایف پی کو بتایا، ’’میرے بیٹے کے دوست اسے طعنے دیتے تھے کہ تمہاری بہن خاندان کو بدنام کر رہی ہے، وہ اسے غصہ دلاتے تھے۔‘‘
تین کمروں کے ایک گھر میں رہنے والے قندیل بلوچ کے اہل خانہ مالی طور پر قندیل پر ہی انحصار کرتے تھے اور اب قندیل کے قتل کے بعد انہیں نہیں معلوم کے وہ کیسے گزارا کریں گے۔ قندیل کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ ایک درجن سے زائد رشتہ داروں کی بھی مدد کرتی تھی۔
قندیل کی والدہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’وہ ایک بہترین بیٹی تھی، کوئی الفاظ اس کی اچھائی کو بیان نہیں کر سکتے۔ وہ ہمارے بیٹوں سے زیادہ ہمارا خیال رکھتی تھی۔ وہ روزانہ چار سے پانچ مرتبہ فون کرتی تھی اور جب کام میں مصروف ہونے کے باعث وہ ایک دن فون نہ کر سکے تو معافی مانگتی تھی۔‘‘
قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستان کے وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز شریف نے کہا تھا کہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے خلاف چند ہفتوں کے اندر قانون سازی کی جائے گی۔ ان کے اس بیان کے بعد پاکستان کی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے ’غیرت کے نام پر قتل‘ اور ’ریپ‘ کے خلاف ایک نئے قانونی مسودے کو منظور کر لیا تھا۔ یہ قانونی مسودہ اگست میں پاکستان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر برس ایک ہزار سے زائد عورتوں کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت یہ عمل جرم ہے تاہم قتل کیے جانے والے مرد یا عورت کے اہل خانہ موجودہ قانون کے تحت قاتل کو معاف کر دینے کا حق رکھتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کے مطابق نئے قانونی مسودے کے تحت مقتول کے اہل خانہ قاتل کو صرف پھانسی کی سزا سے بچانے کے لیے معاف کر سکیں گے لیکن قاتل کو ساڑھے بارہ سال کی عمر قید کی سزا بھگتنا پڑے گی۔