میرا ساتھ دھوکا ہوا ہے، میری بیوی عورت نہیں، شوہر کا مقدمہ
14 مارچ 2022بھارتی سپریم کورٹ نے 14 مارچ پیر کے روز ایک مقدمے کی سماعت کے بعد ایک خاتون سے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے ان الزامات کا مناسب جواب دیں کہ وہ ایک خاتون ہیں کہ نہیں۔ مذکرہ خاتون کے شوہر نے ان بنیادوں پر خاتون سے طلاق حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے کہ ان کی بیوی در اصل ''عورت نہیں ہیں۔‘‘
شوہر نے اپنی دلیل میں بعض طبی رپورٹوں کا حوالہ دیا ہے، جس پر غور و فکر کے بعد جسٹس سنجے کشن کول اور ایم ایم سندریش کی بینچ نے مذکورہ خاتون سے جواب طلب کیا۔ اس معاملے میں در اصل گزشتہ برس کے ایک ریاستی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گيا ہے۔
سپریم کورٹ نے خاتون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کی طبی تاریخ اور رپورٹ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں، ''عضو تناسل اور ناقص ہائمین‘‘ بھی ہے، اس لیے وہ خاتون تو ہیں نہیں۔
شوہر نے اسی بنیاد پر طلاق کے لیے پہلے نچلی عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا، تاہم گزشتہ برس جولائی میں جب ریاست مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ نے بھی اس بنیاد پر طلاق کو درست نہیں قرار دیا اور درخواست خارج کر دی تو مدعی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
شوہر نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ شادی کے بعد جب اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تو پہلے حیض کا بہانہ کیا اور پھر چند روز بعد ہی وہ میکے واپس چلی گئیں۔
تاہم جب واپس آئیں تو پھر جسمانی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی اور پتہ چلا کہ جسمانی طور پر وہ ایک مکمل خاتون نہیں ہیں اور ان سے جنسی تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔
شوہر کا کہنا تھا کہ ان کی شادی جس عورت کے ساتھ ہوئی ان میں، ''ناقص اندام نہانی کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا عضو تناسل بھی ہے‘‘ اور پھر جب تشویش بڑھی تو ان کا میڈیکل چیک اپ کرانے کی نوبت آئی۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ میڈیکل چیک میں اس بات کی تشخیص ہوئی کہ ان میں، پردہ بکارت کا نظام ناقص ہے اس لیے مباشرت ممکن ہی نہیں ہے۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی کو سرجری کے ذریعے حالت درست کرانے کا مشورہ دیا گيا تاہم ڈاکٹروں نے بتایا کہ سرجری کے باوجود بھی خاتون میں حمل کے امکانات تقریباً معدوم ہیں۔
اس جوڑے کی شادی سن 2016 میں ہوئی تھی تاہم جسمانی نقص کے سبب کبھی بھی جنسی تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔
عرضی گزار کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ فریب سے کام لیا گيا اسی لیے ابتدا میں ہی شوہر نے اپنے سسر کو فون کر کے پریشانی بتائی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو واپس لے جائیں۔ تاہم یہ کرنے کے بجائے خاتون کے اہل خانہ نے ان کی سرجری کروائی اور زبردستی سسرال بھیج دیا اور مبینہ طور پر شوہر کو بیوی کو نہ رکھنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔
اسی کے بعد مرد نے پولیس میں شکایت درج کرائی اور طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ آٹھ برس بعد اب یہ مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا ہے اور مذکورہ خاتون کو جواب دینے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا گيا ہے۔