طورخم پر کشیدگی برقرار
15 جون 2016
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے آج بدھ کو اپنے ایک آرمی آفیسر میجر جواد علی کی ہلاکت پر اسلام آباد کے لئے افغان سفیر حضرت عمر زخیوال سے پر زور احتجاج کیا۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ جواد علی افغان فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے نہ صرف اٖفغانستان سے تعلقات کشیدہ ہیں بلکہ اسلام آباد کا دیرینہ اتحادی واشنگٹن بھی حکومتِ پاکستان سے مختلف مطالبات کر رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق امریکی سینیٹ نے پاکستان کے لئے آٹھ سو ملین ڈالرز کی امداد منظور کی ہے، جس میں تین سو ملین ڈالرز اسلام آباد کو اس صورت میں ادا ہوں گے جب وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف قدم اٹھائے گا۔
دفتر خارجہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق ،’’سکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ یہ تعمیرات کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا دونوں ممالک نے ان تعمیرات پرگزشتہ مہینے ہونے والی ملاقات میں اتفاق کیا تھا اور اس کے بعد ہی ان تعمیرات پر کام شروع کیا گیا۔
امریکا نے بھی اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگارجنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’طورخم پر ہونے والے فائرنگ کے واقعات بہت افسوس ناک ہیں۔ اس سے دونوں ملکوں کو نقصان ہوگا اور افغانستان کا زیادہ نقصان ہوگا۔ پاکستان سرحد کے آرپار نقل و حرکت کو بہتر طریقے سے کنڑول کرنا چاہتا ہے، جس میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں کابل یہ سب امریکا کے آشیرباد سے کر رہا ہے۔ لیکن آخر میں کابل کو احساس ہوجائے گا اور وہ بات چیت کے زریعے اس مسئلہ کا حل نکالے گا۔ دونوں ممالک کو اس مسئلے کے حل کے لئے عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ امریکا کی طرف سے مشروط امداد دینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کا پاکستان پر اعتماد کم ہورہا ہے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے۔ لیکن امریکا کی سخت پالیسی پاکستان کو چین کی طرف مزید دھکیل دے گی۔ ‘‘
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس سرحد کا ایک تاریخی تناظر ہے۔ افغانستان ڈیورنڈ لائن کی شکل میں پاکستان کے لئے ایک دردِ سر رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان سرحد پر نقل و حرکت پر اس لیے نظر رکھنا چاہتا ہے تاکہ ٹی ٹی پی اور دوسری دہشت گرد تنظمیں ملک کو عدم استحکام سے دوچار نہ کر سکیں۔ پاکستان صرف آٹھ مقامات پر دروازے لگا رہا ہے اور نقل و حمل کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کابل اس کو ڈیورنڈ لائن کے نتاظر میں دیکھتا ہے۔ اور اُسکو خدشہ ہے کہ یہ شاید بین الاقوامی باڈر بن جائے گا، جو کہ بے بنیاد بات ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی پٹی اتنی لمبی ہے کہ اس پر دیوار تعمیر کرنے یا باڑھ لگانے کے لیے اربوں ڈالرز چاہیے ہوں گے۔ ڈیورنڈ لائن بناتے وقت سرحد کے آر پار بسنے والوں کو جو سہولیات دی گئی تھیں وہ جدید دور میں ممکن نہیں۔ ہمیں آج یا کل سرحد پر نقل و حرکت کو بہتر بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا اور اس کا ردِ عمل بھی آئے گا۔‘‘
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’طورخم پر کشیدگی، امریکا کی طرف سے امداد کی مشروط منظوری، ایران و افغانستان کا بھارت سے ہاتھ ملانا، مودی کی امریکا و خلیج یاترا، سعودی عرب کی نئی دہلی سے گرمجوشی، یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اور اس صورتِ حال کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔ پاکستان کی سول حکومت پڑوسی ملکوں سے تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے۔ خطے میں تجارت کو فروغ دینا چاہتی ہے لیکن فوج اب بھی امورِ خارجہ کو جیو اسٹریٹیجک تناظر میں دیکھتی ہے۔ خارجہ پالیسی کبھی بھی کسی ایک عنصر پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ چین کو دیکھیں وہ جیو اکنامک تناظر میں اپنی خارجہ پالسی کو دیکھ رہا ہے۔ تو ہمیں دوسرے ممالک سے سیکھنا پڑے گا۔ اس صورتِ حال میں اس وقت تک کوئی بہتری نہیں آسکتی جب تک سول و عسکری قیادت خارجہ پالسی کے حوالے سے ایک صفحے پر نہ ہوں۔