1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کی کم تعداد کیوں؟

عبدالستار، اسلام آباد
10 ستمبر 2021

پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کی کم نمائندگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کی جج عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری نہ ہونے پر بھی مایوسی ظاہر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/40AeG
Pakistan Gericht | Supreme Court
تصویر: Waseem Khan/AP Photo//picture alliance

حقوقِ نسواں کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر خواتین کا ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کوٹا بڑھائے جبکہ نچلی عدالتوں میں بھی ان کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

دوسری طرف ملک بھر کی وکلاء برادری نے اعلیٰ عدالتوں میں تقرر کے حوالے سے سینیارٹی کے اصول کو مبینہ طور پر نظر انداز کیے جانے پر ملک بھر میں احتجاج کیا ہے۔ بلوچستان بار ایسویشن نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سندھ اور پنجاب سے جونیئرز ججز کو سپریم کورٹ میں لایا جارہا ہے اور سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

خواتین کے قتل کو کب تک خودکشی قرار دیا جاتا رہے گا؟

’نقاب میری جوتی کے نیچے‘ نیا سعودی ہیش ٹیگ

تاہم وکلا برادری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یا کسی اور بار ایسوسی ایشن نے جج عائشہ ملک کی مخالفت صنفی بنیادوں پر کی۔ 

جیو ٹی وی کے مطابق تقرری کے حوالے سے کل جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا تھا جس میں اکثریتی ووٹ نہ حاصل کرنے پر عائشہ ملک کی تقرری کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔

حقوق نسواں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ فیصلہ مایوس کن ہے۔ ویمن ایکشن فورم سے وابستہ مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ خواتین تاریخی طور پر اس شعبے سے دور رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس حوالے سے بہت ساری وجوہات ہیں جس میں سے ایک بہت بڑی وجہ پدرشاہی نظام ہے، جو عورتوں کو ہمیشہ پسماندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے۔ کیوں کہ تاریخی طور پر اس شعبے میں عورتوں کی تعداد کم رہی ہے اس لیے ان کی اعلیٰ عدلیہ میں نمائندگی بھی کم ہوگئی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کے اعلیٰ عدلیہ میں اور نچلی عدالتوں میں بھی خواتین کی نمائندگی پچاس فیصد کرے اور اگر 50 فیصد ممکن ہو تو کم از کم یہ تینتسس فیصد ہونی چاہیے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر تمام تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہئیں۔ ''لیکن کئی معاشروں میں ایسا ہوتا ہے کہ جب وہاں کچھ طبقات پیچھے رہ جاتے ہیں تو ان کو آگے لانے کے لیے مختلف نوعیت کے انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی مناسب نمائندگی مختلف اداروں میں ہو سکے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ نچلی عدالتوں میں جو تقرریوں کے لیے امتحانات ہوتے ہیں اس کے حوالے سے خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائے تاکہ خواتین کی بڑی تعداد ان عدالتوں میں بھی جائے جبکہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں بھی ان کی مناسب نمائندگی ہو۔‘‘

اسلام آباد سے خواتین کے حقوق کے لیے ایک توانا آواز فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ خواتین کی نمائندگی بار ایسوسی ایشنز میں بھی ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جہاں روایتی طور پر مردوں کا تسلط رہا ہے۔ عورتوں کے لیے بہت کم وہاں جگہ رہی ہے لیکن اب سول سروسز میں بھی خواتین کی بہت بڑی تعداد آ رہی ہے اور وہ بڑے پیمانے پر مقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہو رہی ہیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین میں مطلوبہ صلاحیت موجود ہے اور اگر وہ چاہیں تو اپنی صلاحیت کا لوہا ہر شعبے میں منوا سکتی ہیں۔ حکومتی سطح پر خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کوٹا مقرر کرکے اس تعداد کو بڑھایا جائے۔‘‘

فرزانہ باری کے بقول اس طرح کی تقرریوں میں بار ایسوسی ایشنز کا بڑا کردار ہوتا ہے اور وہاں پر خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ''میرا خیال ہے کہ بار کے انتخابات میں جو مختلف گروپس حصہ لیتے ہیں ان پر یہ پابندی عائد کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے عہدے داروں کا ایک بڑا حصہ خواتین پر مشتمل کرے تاکہ خواتین کی بار ایسوسی ایشنز میں اچھی خاصی نمائندگی ہو جائے۔ نمائندگی مناسب ہوگی تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خواتین کو مناسب نمائندگی مل سکے گی۔‘‘

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وکلاء برادری کسی بھی جج کی تقرری کی مخالفت صنفی بنیادوں پر نہیں کرتی بلکہ اس کا مطالبہ میرٹ کا اور سینیارٹی کا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شعبہ وکالت میں خواتین کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے اور ان کو اور بھی دوسرے مسائل کا سامنا ہے لیکن جج عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت صنفی بنیاد پر نہیں کی گئی ہے بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں تقرریاں کرتے وقت سینیارٹی کے اصول کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وکلاء برادری ان چیزوں کی مخالفت کر رہی ہے اور اس میں صرف کسی خاتون جج کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ ایسے مردوں کی بھی مخالفت کی گئی ہے جو سنیارٹی نہیں رکھتے لیکن وہ اعلیٰ عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں۔‘‘

لطیف آفریدی کے بقول سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دوسری بار ایسوسی ایشنز اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی مناسب نہیں ہے اور اس کے لیے انہوں نے تجاویز بھی دی ہیں۔ ''ہماری تجویز یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی موجودہ تعداد سترہ ہے جسے بڑھا کے 27 کر دینا چاہیے اور اس میں کم از کم پانچ خواتین ضرور ہوں۔ بالکل اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ عدلیہ کے مختلف اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم از کم 33 فیصد ہونی چاہیے۔‘‘