عافیہ صدیقی ایک حقیقت سو افسانے
26 اگست 2008اُنہوں نے اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پرامر یکہ کی صفحہ اول کی یونیورسٹی MIT سے انیس سو پنچانوے میں Biology یعنی علمِ حیاتیات کے شعبے سے ڈگری حاصل کی۔ اُسکے بعد انھوں نے امریکی ریاست Massachusetts کے ایک اور اعلی تعلیمی اور تحقیقی ادارے Brandies سے علم الاعصاب یا دماغی علوم سے مُتعلقہ شعبے سے تحقیق کے بعد پی ایچ ڈی کی اعلی سند حاصل کی۔ اسی دوران ان کے کچھ تحقیقی مضامین بھی شایع ہوئے۔ تعلیم کے دوران ہی عافیہ نے ایک پاکستانی ڈاکٹر امجد خان جو Boston میں مقیم تھا، سے شادی کر لی۔ اُنیس سو ننانوے میں دونوں میاں بیوی نے ایک فلاحی ادارے Institute of Islamic Research and Training کی بنیاد Boston شہر میں رکھی۔ یہ ادارہ اسلامی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بوسنیا کےپناہ گزینوں کی امداد کے لئے سرگرم تھا۔ اس سلسلے میں اس ادارے نے ایک سعودی فلاحی تنظیم الکفاء کے ساتھ تعاون کیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد الکفاء کئی اور فلاحی اداروں کی طرح امریکی خفیہ ایجنسی کی نظر میں مشکوک ہو گیا۔ غالبا اسی وجہ سے اس ادارے کی سرگرمیوں پر امریکی خفیہ ایجنسی نے کڑی نظر رکھی۔
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں بیوی میں بچوں کی پرورش کے معاملے پر گہرے اختلافات پائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی چاہتی تھیں کہ بچوں کی تعلیم امریکہ ہی میں ہو جبکہ انکے شوہر ڈاکٹر امجد خان کا اسرار تھا کہ انکے بچوں کی پرورش پاکستانی معاشرے میں ہو۔ دونوں کے مابین تعلقات اس حد خراب ہوگئے کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر امجد کراچی چلا گیا اور وہاں اس نے ایک ہسپتال میں ملازمت کر لی۔ جبکہ عافیہ صدیقی اپنے بچوں کے ساتھ اپنی والدہ کے ہاں رہنے لگیں، جو کراچی کے معروف علاقے گلشن اقبال میں آباد تھیں۔ تیس مارچ دو ہزار تین کو عافیہ صدیقی اپنی والدہ کے گھر سے کراچی ائرپورٹ کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوئیں۔ وہ راولپنڈی کی فلائٹ لینا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ انکے تین بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا چار سال کا اور اور سب سے چھوٹا فقط ایک ماہ کا۔ تب عافیہ صدیقی کی اپنی عمر تیس سال تھی۔ گھر سے ائیرپورٹ تک کے رستے میں آئی ایس آئی نے انہیں پکڑ کر انکے بچوں سمیت ایف بی آئی کے حوالے کر دیا۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے ایف بی آئی کے حوالے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو القائدہ سے قریبی تعلق رکھنے والی مبینہ دھشت گرد قرار دیتے ہوئے انکی گرفتاری کو میڈیا میں اچھالا۔ عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو اس وقت تک علم نہیں تھا کہ عافیہ اور انکے بچوں کے ساتھ کیا ہوا ۔ تاہم یہ خبر سننے کے بعد دونوں ماں بیٹیوں نے اس وقت کے وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات سے عافیہ صدیقی اور انکے بچوں کی بازیابی کی درخواست کی۔ ساتھ ہی عافیہ کی والدہ اور بہن نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو یہ بھی بتایا کہ انہیں چند موٹر سائیکل سواروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ بچوں اور عافیہ کی سلامتی چاہتی ہیں تو انکی پراسرار گمشدگی کا کسی سے بھی ذکر نہ کریں۔ اسی دوران ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری معظم بیگ نے جوبگرام جیل اور گوانتانامو میں رہ چکا تھا کی ایک کتاب Enemy Combatant منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون قیدی کا زکر تھا جو بگرام جیل میں قیدیوں اور جیل اہلکاروں کے لئے ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی تھی۔ اُدھر برطانوی نوء مسلم صحافی Yvonn Riddley نے بھی اس قیدی کا ذکر کیا اور اسے Gray lady of Bagram کا نام دیا۔ پانچ سال سے زائد عرصے کی گمنامی کے بعد برطانوی صحافی ریڈلی نے سات جولائی سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد میں انکشاف کیا کہ عافیہ صدیقی بگرام جیل میں قید ہے اور اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوا ہے۔ پانچ اگست سن دو ہزار آٹھ کو چھتیس سالہ عافیہ صدیقی کو نیو یارک کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ امریکی حکام کے مُطابق عافیہ صدیقی کو سترہ جولائی دو ہزار آٹھ کو افغان سکیورٹی فورسز نے گورنر غزنی کے دفتر کے باہر سے ایسے دستاویزات جن میں بم بنانے کی ہدایات درج تھیں اور کچھ سیال مادے کے ساتھ گرفتار کیا۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے بگرام جیل میں امریکی فوجیوں پر گولی چلائی۔ جس کے جوابی حملے میں وہ شدید زخمی ہوئیں۔