عالمی اقتصادیات کی کمزور صورت حال اور ورلڈ اکنامک فورم
20 جنوری 2016آج سے شروع ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے ڈاووس اجلاس میں شرکت کرنے والے ڈھائی ہزار سے زائد مندوبین میں چالیس ممالک کے سربراہ مملکت و حکومت بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ ہالی ووڈ ستاروں اور بڑے بڑے کاروباری اداروں کے سربراہان بھی سوئٹزرلینڈ پہنچ چکے ہیں۔
ڈاووس کے ورلڈ اکنامک فورم کے ماحول کو آج پاکستانی شہر چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر طالبان کے دہشت گردانہ حملے نے افسردہ کر دیا ہے۔ اس حملے میں اکیس ہلاکتوں کا بتایا گیا ہے۔ کئی عالمی لیڈروں کی شرکت کی وجہ سے فورم کے دوران سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی ہے۔
عالمی اقتصادی فورم میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف، امریکی نائب صدر جو بائیڈن، جرمنی کے نائب چانسلر زیگمار گابریل اور سویڈش وزیراعظم اسٹیفن لوویئن آج مختلف اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ کشیدگی کے حامل ملکوں سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ بھی فورم کے ایام میں ڈاووس شہر میں موجود ہوں گے۔
ترتیب دیے گئے پروگراموں کے مطابق اگلے ایام میں ایشیا، افریقہ، عرب دنیا اور پیسیفک کے کئی دوسرے لیڈران بھی مختلف سیشنز میں شریک ہوں گے۔ نائجیریا کے صدر محمد بخاری کو بوکوحرام کے معاملے پر سخت سوالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
زیر بحث لائے جانے والے موضوعات میں ایک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی بجائی ہوئی وہ انتباہی گھنٹی ہے کہ ابھرتی اقتصادیات کے لیے رواں برس منفعت کا حامل نہیں ہو گا۔ اسی تناظر میں چین کی سالانہ شرحِ پیداوار میں خاطرخواہ گراوٹ محسوس کی جا رہی ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات فورم میں چینی پالیسی سازوں کی بعض غلطیوں پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
نئے سال کے موقع پر جرمن شہر کولون میں خواتین پر کیے گئے جنسی استحصالی حملوں کے تناظر میں یورپ کو درپیش مہاجرین کے سیلاب پر بھی مختلف سیشنز میں یورپی لیڈران اور دانشور اپنی آراء کے ساتھ بحث کریں گے۔ یونان کی مالیاتی مشکلات کو بھی زیر بحث لانے کی پوری تیاری ہے۔
سماجی و معاشرتی معاملات میں دنیا کے بعض ملکوں میں افزائش پاتی غربت اور زمین کے ماحول میں پیدا ہونے والی کلائمیٹ چینج کی پیچیدگیاں بھی زیرِ بحث لائی جائیں گی۔ ہالی ووڈ کے اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو بھی فورم میں شریک ہیں اور وہ ماحولیات سے جڑے سیشنز میں شریک ہوں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے آغاز سے قبل بین الاقوامی امدادی تنظیم اوکسفیم نے دنیا میں پائی جانے والی مالیاتی عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان پیدا خلیج پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی 3.5 بلین آبادی کے پاس اُتنی دولت نہیں ہے، جتنی اِسی زمین کے باسٹھ افراد کے پاس ہے۔