عالمی برادری طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے، اخوندزادہ
29 اپریل 2022کابل میں سخت گیر طالبان کی حکومت گزشتہ برس اگست میں قائم ہوئی تھی، جسے اب آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اب تک لیکن دنیا کے کسی بھی ملک نے کابل میں برسراقتدار اس حکومت کو باقاعدہ طور پر نہ تو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ سفارتی روابط قائم کیے ہیں۔
افغان طالبان کی پہلی کامیابی، روس میں سفارت کار کی تقرری
جب سے افغانستان میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں، عوامی زندگی سے ملکی خواتین کے ایک بار پھر بتدریج اخراج کا عمل بھی جاری ہے۔
عید کا پیغام
افغان طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ نے چند ہی روز بعد رمضان کے اسلامی مہینے کے اختتام پر منائے جانے والے عید الفطر کے مذیبی تہوار کی مناسبت سے اپنے ایک تحریری پیغام میں جمعہ 29 اپریل کے روز کہا کہ آج کے دور میں دنیا سمٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں بن چکی ہے اور طالبان کی حکومت کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے افغان عوام کو درپیش مشکلات کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
افغانستان: طالبان کی شہریوں کے لیے مزید پابندیاں
اپنے اس پیغام میں اخوندزادہ نے خواتین کے حقوق او لڑکیوں کے لیے ملک بھر کے ہائی اسکولوں کو دوبارہ کھولنے جیسے ان موضوعات کے بارے میں کچھ نہ کہا، جن کا بین الاقوامی برادری کی طرف سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس طالبان کے لیڈر نے کہا، ''موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کا عمل اس لیے پہلے مکمل کیا جانا چاہیے کہ پھر ہم سفارتی ضابطوں اور اصولوں کے مطابق اپنے مسائل کے باقاعدہ حل کے لیے نتیجہ خیز کوششیں کر سکیں۔‘‘
اخوندزادہ برسوں سے منظر عام پر نہیں آئے
طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ گزشتہ کئی برسوں سے منظر عام پر نہیں آئے۔ وہ ایک رہنما کے طور پر عمومی سیاسی چکا چوند سے دور افغان شہر قندھار میں رہتے ہیں، جسے طالبان تحریک کا فکری مرکز سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان خبردار رہے، افغان طالبان کی اسلام آباد کو تنبیہ
اس پس منظر میں اخوندزادہ نے عید الفطر کی نسبت سے اپنے بیان میں کہا، ''اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کی دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن چکی ہے۔ افغانستان کا عالمی امن اور سلامتی میں اپنا ایک کردار ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری اسلامی امارت افغانستان کو تسلیم کرے۔‘‘
عالمی برادری کی خواہش
افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی حکومت کے اقدامات پر مسلسل نظر رکھنے والی بین الاقوامی برادری کی خواہش ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور ہندو کش کی اس ریاست کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کو ملک میں خواتین کے حقوق کی بحالی سے مشروط کیا جانا چاہیے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، طالبان میں تقسیم کا باعث
گزشتہ برس اگست سے اب تک ہزارہا افغان خواتین اپنی سرکاری ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ افغان خواتین کو ملک سے رخصتی حتیٰ کہ ایک سے دوسرے شہر تک سفر کی بھی تب تک اجازت نہیں دی جاتی جب تک کہ ان کا کوئی محرم مرد ان کے ہمراہ نہ ہو۔
ہیبت اللہ اخوندزادہ کی عمر 70 اور 80 برس کے درمیان ہے اور وہ 2016ء سے سخت گیر مذہبی سوچ کے حامل افغان طالبان کے نظریاتی رہنما چلے آ رہے ہیں۔
م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)