عالمی مالیاتی بحران کے افریقہ پر شدید اثرات
27 جولائی 2009بین الاقوامی مالیاتی بحران سے افریقہ کے 47 ممالک کی مجموعی معیشی ترقی کا توزان بہت بگڑ گیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ بھی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ سال رواں کے دوران براعظم افریقہ کے ملکوں میں معیشی ترقی کی مجموعی شرح گذشتہ ایک عشرے کے مقابلے میں تقریبا آدھی رہ جائے گی۔
پیرس میں قائم تنظیم برائے اقتصادی ترقی اور تعاون OECD نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افریقی ملکوں میں تقریبا ایک عشرے سے نظر آنے والی پانچ فیصد معیشی ترقی کی شرح میں 2009 کے دوران نمایاں کمی آ چکی ہے، اور اس سال دسمبر تک یہی شرح مزید کم ہو کر 2.8 فیصد تک ہو جانے کا امکان ہے۔
OECD کی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر مالیاتی بحران کے اثرات پر جلد قابو پا بھی لیا گیا تو بھی سال 2010 ء میں افریقی ریاستوں میں ترقی کی مجموعی شرح 4.5 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکے گی۔
تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کی اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ بہت سے افریقی ملکوں میں اگر گذشتہ عشرے کے دوران بڑے پیمانے پر معیشی اصلاحات متعارف نہ کرائی گئی ہوتیں تو ان ریاستوں پر موجودہ بین الاقوامی مالیاتی بحران سے اثرات اور بھی شدید تر ہوسکتے تھے۔
دوسری طرف افریقی سربراہان مملکت و حکومت کا اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لئے ایک تین روزہ اجلاس پیر کے دن سے یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں شروع ہو گیا۔ یوگنڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افریقہ کی اقتصادی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی، جب تک کہ تمام افریقی ملک علاقائی سطح پر ایک دوسرے سے بھر پور تعاون نہیں کرتے۔
اس اجلاس میں سوڈانی صدر عمر حسن البشیر سمیت چند بڑے افریقی رہنما شرکت نہیں کررہے۔ سوڈانی صدر کی غیر حاضری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے حالیہ دنوں میں یوگنڈا سے مطالبہ کیا تھا کہ صدر البشیر کی اس کانفرنس میں شرکت کے موقع پر انہیں دارفور میں انسانیت سوز مظالم کے الزام میں گرفتار کرکے عالمی عدالت کے حوالے کیا جائے۔ اس اجلاس کے دوران مختلف افریقی رہنما بند کمروں میں ملاقاتیں بھی کررہے ہیں، جن میں علاقائی امور اور تنازعات پر بات چیت بھی جاری ہے۔
رپورٹ: انعام حسن
ادارت: افسر اعوان