عالمی مالیاتی فنڈ استحکام کی شاہراہ یا ’تباہی کی ترکیب‘
4 ستمبر 2018دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی خاطر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) وجود میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد اقتصادی طور پر تباہ ہونے والے ممالک کو عارضی قرضے فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنی اپنی معیشتوں کو بہتر بنا سکیں۔
ساتھ ہی یہ لازمی تھا کہ وہ ان قرضوں کو ایک نظام الاوقات کے تحت واپس بھی کریں۔ امید تھی کہ عالمی مالیاتی ادارہ عالمی سطح پر اقتصادی خوشحالی کا باعث بنے گا اور تجارتی امور میں بہتری پیدا ہو گی۔ اس حکمت عملی کے تحت یہ جزو بھی اہم تھا کہ یوں عالمی سطح پر غربت میں کمی ممکن ہو سکے گی۔
اس مالیاتی ادارے کو معرض وجود میں آئے چوہتر برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس ادارے کی حامیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرامز کے تحت سرمائے کی فراہمی اور ان مراعات کو حاصل کرنے والے ممالک سے اصلاحات کے مطالبات کے باعث زیادہ سخت اقتصادی مشکلات سے بچنے میں مدد مل رہی ہے۔
تاہم ناقدین کے مطابق آئی ایم ایف کے پروگرامز مالی مشکلات کے شکار ممالک کو اس ادارے پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کے عوام میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرامز قدرے کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اس ادارے کے مشرق سطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر محسن ایس خان کے مطابق 1973ء تا سن 1988 مجموعی طور پر 69 ممالک کو قلیل المدتی یا طویل المدتی مالیاتی پیکجز دیے گئے، جن میں زیادہ تر پروگرامز کامیاب ہوئے۔ ان میں اسّی کی دہائی میں بالخصوص میکسیکو، بھارت اور کینیا کی مثال دی جاتی ہے۔
نوّے کی دہائی کے اواخر میں ایشیا کو مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے اقتصادی حالات میں مندی بنی۔ اس کی وجہ ان ممالک کا عالمی مالیاتی ادارے پر ضرورت سے زیادہ انحصار بنا تھا۔
اس صورتحال میں آئی ایم ایف نے ان ممالک کو صرف اس صورت میں ہنگامی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی اپنی پالیسیوں میں اسٹریکچرل (ساختیاتی) تبدیلیاں لائیں۔ ان ممالک کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کو قبول کر لیں۔ ان ممالک نے آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط منظور کرتے ہوئے امدادی رقوم تو حاصل کر لیں لیکن اس کے نتیجے میں ان ممالک کی اقتصادی نمو کی رفتار میں کمی ہوئی اور لوگ غربت کا شکار ہوئے۔
پاکستان کا اقتصادی مسئلہ اور ممکنہ حل
پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ اقتصادیات کی زبوں حالی کا بھی ہے۔ پاکستان ریاست مالی ادائیگیوں کے توازن کے ایک بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ ممکنہ بحران اس ملک کی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں پاکستان کی اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے مالی ادائیگیاں کرنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو فوری طور پر نو بلین ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ فوری بحرانی صورتحال سے بچا جا سکے۔ وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکومت اس مالی بحران کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر عائد کرتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں سے آئی ایم ایف پر اپنا انحصار کم کر دے گی۔ کئی ناقدین کے مطابق اسلام آباد میں بننے والی حکومت کو ایسا کرنے کے لیے ’انقلابی اقدامات‘ کرنا ہوں گے، جو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ممکن نظر نہیں آتے۔
پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے اپنے لیے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ قرضے 2013ء میں لیے گئے تھے۔ تب اسلام آباد نے اسی طرح کے ایک بحران کو روکنے کے لیے، جس طرح کے بحران کا اب پھر خطرہ ہے، آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر کے قرضے لیے تھے۔