عالمی یوم تعلیم، فرسودہ نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت
24 جنوری 2020پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد پریشان کن حد تک ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، یونیسکو، کے مطابق پاکستان میں 23 ملین اسکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرحِ خواندگی 62.3 فی صد ہے۔ پاکستان تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 2.14 فی صد خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں شرحِ خواندگی میں بہتری آئی ہے تاہم معیار تعلیم میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ماہرین تعلیم کے مطابق اسکول جانے والے کئی بچے اپنے نصاب کی بنیادی سمجھ سے محروم ہیں۔ اس بات کا ذکر 2016ء کی نیشنل ایجوکیشن رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے جس کے مطابق بچوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے مرکزی مضامین میں قابل قبول نمبر لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتی اور اس کی بڑی وجہ فرسودہ تعلیمی نظام ہے۔
پاکستان میں رائج تعلیمی نظام کے حوالے سے کالم نگار اور کیمرج کے امتحان میں اکیس اے گریڈ لیکر ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والے علی معین نوازش کا کہنا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام پر بات کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک منقسم نظام ہے، " یہاں تقسیم طبقاتی بھی ہے یعنی پرائیوٹ اور سرکاری اسکولوں کے درمیان تقسیم، آپ برٹش او اے لیول کر رہے ہیں یا لوکل سسٹم کر رہے ہیں، زبان کی بھی ہے کہ آپ اردو میڈیم میں ہیں یا انگلش میڈیم میں ہیں یا آپ مدرسہ سسٹم میں ہیں۔ یعنی یہ ایک بکھرا ہوا سسٹم ہے۔‘
علی معین نوازش بنیادی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، '' تقسیم کے علاوہ ایک یہ ہے آپ کا نصاب یعنی آپ کیا پڑھا رہے ہیں، دوسرا یہ جدیدیت سے آخر کتنا متعلقہ ہے ؟ اور تیسرا یہ کہ اس کو جانچنے کا معیار یعنی آپ جو پڑھا رہے ہیں وہ صحیح ہے ہیں یا نہیں۔ پھرہائی اسکول اور ہائر ایجوکیشن کی سطح پر تعلیمی نصاب اور جاب مارکیٹ میں مطابقت کے حوالے سے بھی ایشو ہے۔ تو بنیادی طور پر یہ ایک نہایت منقسم نظام ہے۔"
علی معین کے مطابق، " بچوں سے رٹا لگوانا بھی بھی ہمارے سسٹم کا بنیادی حصہ ہے۔ بچے امتحان میں کتنا بڑا لکھتے ہیں کتنا لمبا لکھتے ہیں اور آپ کا لکھا گیا جواب کتنا کتاب میں درج معلومات سے ملتا ہے تو اس چیز کو ہمارا نظام نوازتا ہے۔ بچوں کو سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیت ہمارا موجودہ تعلیمی نظام نہیں دیتا۔‘‘
ملک میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ عام انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں تعلیم اور اس کے نظام میں بہتری کے وعدے تو شامل کرتی ہے تاہم ان پر شاذ ونادر ہی کوئی عمل ہوتا ہے۔ ملک کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے منتخب ہونے کے بعد ہی اپنے پہلے خطاب میں تعلیمی اصلاحات لانے کی بات کی تاہم یہ معاملہ اب بھی علم درآمد کا منتظر ہے۔
اس تناظر میں علی معین نوازش کا خیال ہے،'' سب سے اہم مسئلہ ہے سیاسی سطح پر اس کام کو سنجیدگی سے سوچنے اور اس پر عمل کرنے کا۔ ہماری حکومت ، سیاستدان اور ملک کے دیگر کرتا دھرتا اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور نہ ہی ہماری عوام کسی بھی سیاسی جماعت کو تعلیمی اصلاحات کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے۔ حکومتوں کو عام طور پر ایسے اقدامات پسند آتے ہیں جن کو سال دو سال بعد ظاہری طور پر دکھا سکیں۔