عالمی یوم صحت پر ذیابیطس کے خلاف جنگ
7 اپریل 2016پاکستان ذیابیطس انسٹیٹیوٹ لاہور کے پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر صداقت علی کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد ذیابطیس میں مبتلا ہیں جبکہ ان میں سے پچیس لاکھ افراد کو یہ معلموم ہی نہیں کہ ان کو یہ مرض لاحق ہو چکا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ اس مرض میں مبتلا افراد کو روزآنہ کی بنیاد پر جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے بعض پیچیدگیاں بھی پنپ رہی ہوتی ہیں جس سے صحت عامہ کے نظام پر بہت دباؤ پڑتا ہے۔ عام طور پر لوگ ذیابیطس کا علاج صرف اس حد تک کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ان کو تکلیفوں سے چھٹکارا ملے۔ ایسے لوگوں میں وقت کے ساتھ دوسری بیماریاں بھی جمع ہونے لگتی ہیں جس کی وجہ سے ہیلتھ کیئر سسٹم پر بوجھ حد سے زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔‘‘
ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس میں جسم کا دفاعی نظام خود ہی ان خلیوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے جو خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صداقت کے مطابق ٹائپ ٹو ذیابیطس عام طور پر بالغوں میں چالیس سال کے بعد ہوتی ہے،’’ اس کی علامتیں بہت آسانی سے نظر آجاتی ہیں ۔ پہلے تو یہ کہ جن خاندان میں شوگر کا مرض ہو اس کے افراد کو اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اگر پیٹ بڑھا ہوا ہو اور وزن بھی زیادہ ہو تو ذیابطیس کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ ورزش نہیں کرتے ان میں بھی شوگر کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جو نشانیاں ہمیں الرٹ کرتی ہیں ان میں بے وجہ تھکاوٹ کا احساس ہونا، ضرورت سے زیادہ پیشاب آنا، زیادہ پیاس کا لگنا، منہ خشک رہنا، پریشانی یا تناؤ کا ہونا، ڈپریشن، کام کاج کا دل نا چاہنا، پٹھوں میں دکھن ہونا۔ یہ وہ سب نشانیاں ہیں جو ہمیں الرٹ کرتی ہیں کہ ہمیں اپنے بلڈ شوگر کی صورتحال کا پتہ لگانا چاہیے۔‘‘
ٹائپ ون کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ بچوں کو خاص طور سے بارہ سال سے کم عمر بچوں کو ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صداقت کے مطابق، ’’ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم اپنے ہی ایک عضو کے خلاف سرگرم ہو جاتا ہے۔ ٹائپ ون کی عام طور پر جلدی تشخیص ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس میں اتنی تیزی سے تبدیلی ہوتی ہے اور حالت اتنی تیزی سے بگڑتی ہے کہ لوگوں کو فوراً اپنے بچوں کو لے کر ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ تاہم ٹائپ ون کا اچھا علاج موجود ہے جس کی وجہ سے اب بچے بڑے ہونے ہر عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے اور خاندان بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صداقت کے مطابق ذیابیطس کا مرض ختم نہیں ہوتا۔ تاہم احتیاط کے ذریعے اس سے منسلک تکالیف اور بیماریوں میں بہت حد تک کمی ممکن ہے، ’’بہت سے لوگ اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش میں کئی حکیموں یا ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اس کو ختم کرنے کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی مریض کی ٹائپ ٹو ذیابیطس خود ہی ریورس ہو جاتی ہے کچھ عرصے کے لیے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ مرض ختم ہو گیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں سال دو سال میں پھر ٹائپ ٹو شوگر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس سے بچنا ممکن ہے طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر لیکن اگر یہ ایک بار ہو جائے تو زندگی بھر یہ مرض ساتھ رہتا ہے۔‘‘
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے موجودہ شرح کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو 2030ء تک اس خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کڑوڑ چودہ لاکھ سے زائد ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ روز مرہ زندگی میں متوازن غذا کا استعمال کریں اور ورزش کو اپنا معمول بنائیں، تلی ہوئی چیزوں اور چکنائی سے پرہیز کیا جائے جبکہ سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔