1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عثمانیہ دور کی تجارتی روایت کا بوجھ اُٹھائے استنبول کے قُلی

11 نومبر 2021

جدید ترکی کا تجارتی و مالیاتی مرکز استنبول، اب بھی عثمانیہ دور کی کاروباری ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس شہر کی تجارتی سرگرمیوں میں پورٹرز یا قُلیوں کی مشقت زدہ زندگیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/42sH3
Türkei die Gepäckträger vom Grand Bazar in Istanbul
تصویر: Ozan Kose/AFP

استنبول کے گرینڈ بازار سے کچھ ہی فاصلے پر ایک تاریک سی گلی میں قلی بیرام یلدیز اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کے اپنے جسمانی وزن سے قریب دو گنا وزنی ایک گٹھری اس کی کمر پر لادی جانی ہے۔ اس کے ساتھ کچھ اور مزدور بھی کھڑے ہیں جو ایک لاری پر سے کپڑوں کی گٹھریاں اُٹھا رہے ہیں جنہیں وہ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے مقامی دکانوں تک پہنچائیں گے۔ پیٹھ پر وزنی گٹھریوں کا بوجھ لادنے کی پرانی روایت ان مزدورں کی کمر کو خم اور گھٹنوں کے مسلسل جھکتے چلے جانے کا سبب بنتی ہے۔

''میں آدھا ہیرکولیس اور آدھا ریمبو ہوں۔‘‘ 40 سالہ یلدیز نوجوان باڈی بلڈرز کی طرح اپنے 'مسلز‘ سے بھرپور جسم کی نمائش کرتے ہوئے مزاحیہ لہجے میں اپنی بہادری اور طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ 200 کلو گرام تک کا بوجھ اپنی پیٹھ پر اُٹھا سکتا ہے۔ 

استنبول کی قدیم تجارتی ثقافت

دنیا کا یہ وہ واحد شہر جو دو براعظموں ) ایشیا اور یورپ( کے سنگم پر واقع ہے، صدیوں سے سیاسی، تجارتی اور سیاحتی انفرادیت اور انوکھی کشش کا حامل ہے۔ جدید ترکی کے ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک ہونے کے باوجود استنبول کے بہت سے علاقے اور وہاں کی ثقافت ابھی تک عثمانیہ دور کی عکاس ہے۔ بیرام یلدیز بھی ان سینکڑوں مردوں میں شامل ہے جو ترکی کے تجارتی دارالحکومت استنبول کے قدیم مرکزی علاقے میں طلوع فجر سے پہلے جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ 

پیٹھ پر کپڑوں کی بھاری گٹھریاں اُٹھائے، خم زدہ کمر اور ٹخنوں کی طرف جھکتے ہوئے گھٹنوں کے ساتھ بوجھل قدموں سے چلتے یہ مرد اپنی قسمت کو کوستے، بڑبڑاتے اور اپنے آپ سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یلدیز کا ایک ساتھی عثمان بڑبڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ بد ترین مزدوری ہے لیکن کرنے کو کچھ اور ہے بھی تو نہیں۔ عثمان گزشتہ 35 برسوں سے یہ کمر توڑ مزدوری کر رہا ہے۔

Türkei die Gepäckträger vom Grand Bazar in Istanbul
استبول کے گرینڈ بازار میں مالبرداری کرنے والے تصویر: Ozan Kose/AFP

تاریخی پس منظر

شہری تاریخ کا ایک ترک مؤرخ نجدت ساکا اولو کے مطابق استنبول کے قُلیوں کی روایت کے عروج کا دور دراصل اٹھارہویں صدی سے چلا آ رہا ہے۔ اُس وقت سلطان محمود دوم اس علاقے کا حکمران تھا اور اس علاقے کو ابھی بھی قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قُلی کو ترک زبان میں' حامال‘ کہا جاتا ہے۔ اُس دور میں زیادہ تر پورٹرز یا قُلی آرمینیائی باشندے ہوتے تھے اور یہ شہر کی انتہائی متحرک ثقافتی تاریخ کی عکاسی کرتے تھے۔

آج زیادہ تر تجارت کردوں کے پاس ہے۔ ان کا تعلق نسلی تنوع سے بھرپور صوبوں مالاتیا اورجنوب مشرقی میں آدیامان صوبے سے ہے۔ ان علاقوں میں کئی خاندان نسلوں سے استنبول کے تاجروں کیساتھ گہرے روابط قائم کیے ہوئے ہیں۔ مؤرخ نجدت ساکا اولو کہتے ہیں،'' سیل فونز کے دور سے پہلے یہ پورٹرز 'کاروباری  مالکان‘ کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔‘‘ مؤرخ ساکا اولو کے بقول،'' شہر کی ساخت، تجارت اور ٹیپوگرافی کی وجہ سے یہ شہر قُلیوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔‘‘                                  

'پورٹرز‘ کے کاموں کا طریقہ کار

پورٹرز یا قُلی عام طور پر ایک کپتان کی قیادت میں اسکواڈز یا دستوں کی شکل میں کام کرتے ہیں جو ان کے کاموں کو تاجروں کیساتھ مربوط کرنے اور ان کی شفٹوں کے اختتام پر انہیں دیہاڑی کی رقم ادا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘ یلدیز کا کہنا ہے کہ وہ یومیہ 200 سے 300 لیرا تک کما لیتا ہے۔ اگر کوئی دن اُس کے لیے اچھا ثابت ہو تو وہ اس سے زیادہ بھی کما لیتا ہے۔ قلیوں کے کام کے لیے سخت ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر دستہ ایک مخصوص مائیکرو ڈسٹرکٹ کا کنٹرول سنبھالتا ہے اور دوسرے کے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتا۔ '' اگر میں وہاں جانے کی کوشش کروں گا تو وہ مجھے اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ان کا علاقہ ہے۔‘‘ 49 سالہ پورٹر محمد تُکتاس سڑک کی مخالف سمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔

Türkei Großer Basar in Istanbul Geschäfte
صدیوں پرانا گرینڈ بازارتصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gurel

قریب 30 برسوں سے تکتاس اسی سات منزلہ عمارت کی سیڑھیوں پر بوجھ اُٹھا کر اوپر نیچے کرتا رہتا ہے۔ اس مزدوری نے اُسے جسمانی طور پر ایک پہلوان کی مانند بنا دیا ہے۔ اسکا حجم دن بدن بڑھتا اور کمائی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سات منزلہ عمارت میں سو سے زیادہ تاجر تکتاس جیسے مزدوروں پر انحصار کرتے ہیں، یہ اس تجارت سے منسلک آخری زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہے۔ اس علاقے میں پہیوں سے چلنے والی گاڑیاں بیکار ہیں۔ تنگ دالانوں والے مکانوں اور بغیر لفٹوں کی ان عمارتوں میں ان کا بہت کم مصرف ہے۔ تکتاس خود کو دم توڑتی ہوئی اس قدیم تجارت کے آخری زندہ بچ جانے والے نشانات میں سے ایک سمجھتا ہے، جسے تاجروں نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب قابل رسائی جگہوں پر چلے گئے ہیں اور جو کم مشکل کام کرنے والے دوستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ 

تکتاس کہتا ہے،'' کبھی ہم چار پانچ ہوتے تھے، لیکن معمر افراد چلے گئے اور میں یہاں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اب ہمارا کام کم ہو گیا ہے اور ہم پہلے جتنا نہیں کما رہے۔‘‘ 

کم از کم اجرت کمانا بھی مشکل

تکتاس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی یومیہ 20 ڈالر تک کما لیتا ہے، لیکن اگر وہ سرکاری طور پر طے شدہ کم از کم یومیہ اجرت یعنی 350 ڈالر ماہانہ کمانا چاہے تو یہ اس کے لیے ممکن نہیں کیونکہ اُسے معمول کے کام سے کوئی چھٹی نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس نہ تو صحت کا کوئی نظام ہے نہ ہی سوشل سکیورٹی۔ اُسے اضافی احتیاط اور خیال رکھنا ہے کہ اُس کی کمر اُس کی ریٹائرمنٹ تک اُس کا ساتھ دیتی رہے۔ وہ کہتا ہے، '' ہر کوئی جو مجھ سے بڑا ہے اُس کی کمر یا گھٹنوں کا آپریشن ہو چُکا ہے۔‘‘ اس کے باوجود تکتاس کے آس پاس محلوں میں اب بھی اُسے ایسے بوڑھے مزدور نظر آتے ہیں جن کے بال سفید ہو چُکے ہیں اور ان کی ٹانگیں لکڑی کے ڈنڈے کی طرح سوکھی پتلی دکھائی دیتی ہیں۔ تب بھی اکثر نرم اورخراب ہڈیوں اور ہرنیا کے ساتھ 70 سالہ بوڑھے پورٹرز کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پرانے شہر کے تاجروں کے لیے یہ نعمت ہیں۔

تکتاس کا قیاس ہے کہ 10 سے 15 سال کے بعد یہ نوکری باقی نہیں رہے گی۔

 

 ک م/  ع ح/ اے ایف پی