عدلیہ کا فیصلہ، جیت انصاف یا پھر تحریک انصاف کی؟
1 مارچ 2023کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ انصاف کے اصولوں کے بالکل مطابق ہے جبکہ کچھ کے خیال میں اس فیصلے نے عدلیہ اور ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی غیرجانب داری کے دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ 90 دن کے اندر دونوں صوبوں میں انتخابات کا انعقاد کرے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں گورنر نے اسمبلی نہیں توڑی تھی، اس لیے صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے وہاں پر انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں کیوں کہ گورنر نے اسمبلی توڑی تھی، اس لئے انتخابات کی تاریخ دینے کے وہ پابند ہیں۔
انصاف کی فتح؟
انصاف لائرز فورم کے سابق صدر اور سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سردار مصروف خان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انصاف کی فتح ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئین کا آرٹیکل 105 بڑا واضح ہے کہ انتخابات نوے دن میں ہونا چاہییں۔ حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ وہ نوے دن میں انتخابات کرائے۔‘‘
سردار مصروف خان کے مطابق حکومت زیادہ سے زیادہ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کر سکتی ہے، ''لیکن نظرثانی میں بھی وہی جج ہوں گے، جو اس فیصلے میں تھے اور کسی طرح بھی فل بینچ بنانے کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
پی ٹی آئی کی پنجاب میں ممکنہ بھاری اکثریت
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ عمران خان نے، جب سے اقتدار چھوڑا ہے، اس کے بعد سے اب تک ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو بھرپور فتح حاصل ہوئی ہے۔ منگل کے روز اسلام آباد میں عمران خان کی آمد پر پی ٹی آئی نے ایک بڑا مجمع اکٹھا کیا، جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر گیا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اگر نوے دن میں انتخابات ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی پنجاب میں بھاری اکثریت سے جیت سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''راجن پور میں ہونے والے حالیہ انتخابات نے اس بات کو تقویت پہنچائی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت ہے۔ پنجاب میں اس وقت تمام طاقت ور سیاسی افراد پی ٹی آئی کے ساتھ یا تو اتحاد کرنے کا سوچ رہے ہیں یا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کے حوالے سے سوچ و بچار کر رہے ہیں۔‘‘
احسن رضا کے مطابق پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کو ڈرایا دھمکایا بھی ہے، ''سابق رکن پنجاب اسمبلی عبدالحئی دستی نے یہ دعوی کیا کہ انہیں حکومت اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی جوائن کریں، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے ان کے گھر پر چھاپا مارا لیکن اس کے باوجود انہوں نے پی ٹی آئی نہیں چھوڑی۔‘‘
تحریک انصاف کی مقبولیت برقرار ہے
گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا سے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ خیبرپختونخوا میں اب عملی طور پر حکومت جمعیت علماء اسلام کی ہے اور وہ مختلف سیاسی قوتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔
تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر مختار باچا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی مقبول ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت مہنگائی کو قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے اور عام آدمی کے مسائل بڑھے ہیں۔ کرپشن کے کیسز واپس کروانے سے بھی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔‘‘
عمران خان مقبول نہیں ہیں، ن لیگ
تاہم نون لیگ اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ پارٹی کو پنجاب میں بہت بری طرح شکست ہونے والی ہے۔ نون لیگ سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کیا، ''یہ غلط پروپیگنڈہ ہے کہ عمران خان عوام میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اگر عمران خان عوام میں مقبول ہوتے تو آج ملک کی جیلیں پی ٹی آئی کے کارکنان اور عوام سے بھری ہوئی ہوتیں۔ لیکن لوگوں کو یہ سمجھ میں آ گیا ہے کہ عمران خان جذباتی نعرے لگاتے ہیں، عملی طور پر عوام کے لئے کچھ نہیں کرتے۔‘‘
شاہ محمد شاہ کے مطابق عوام اس بات سے واقف ہیں کہ نون لیگ کو حکومت بہت سخت حالات میں دی گئی تھی، ''نون لیگ نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔ ابھی کچھ پٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے لیکن بعد میں عوام کو مزید ریلیف دیں گے اور الیکشن جیت کر بھی دکھائیں گے۔‘‘
عدلیہ اور جی ایچ کیو کی غیر جانبداری پر سوالات
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وزیر قانون نے یہ دعوی کیا ہے کہ چار ججوں نے از خود نوٹس کو مسترد کر دیا تھا، اس لیے وہ یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔ تو ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ اس مسئلے کو آگے چل کر اٹھائے گی۔ اس کے علاوہ، جس انداز میں بینچ بنائی گئی ہے اور مرضی کے ججز رکھے گئے ہیں، اس پر بھی سوالات اٹھیں گے۔‘‘
ایوب ملک کے مطابق اس فیصلے کے بعد ان شکوک و شبہات کو بھی تقویت ملے گی، جن کی بنیاد پر نون لیگ یہ دعوی کر رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر اب بھی عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں، ''پہلے ن لیگ یہ باتیں ڈھکے چھپے الفاظ میں کہہ رہی تھی۔ اب وہ کھلم کھلا یہ باتیں کہے گی، جس کی وجہ سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی غیر جانبداری کے دعووں پر سوالات اٹھیں گے۔‘‘