عراقی صوبوں میں الیکشن اور ووٹرز کا مُمکنہ رجحان
2 فروری 2009عراق کے چودہ صوبوں میں انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹروں کا جو غیر سرکاری رجحان سامنے آ یا ہے اُس کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی کے اتحادیوں کو ووٹروں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہو ئی ہے۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عراقیوں نے امریکی حمایت یافتہ وزیر اعظم نوری المالکی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
عراقی میڈیا کے علاوہ دوسری رپورٹس اور جائزوں سے یہ سامنے آیا ہے کہ عوام کی اکثریت نے مالکی کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ووٹ اُن کے حق میں یا اُن کے اتحادیوں کے امیدواروں کو دیا ہے۔ سنی علاقوں کے علاوہ خاص طور سے شیعہ علاقوں میں ووٹرز کا زور شور اور جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا اور وہاں نوری المالکی کی حمایت میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
عراق کے الیکشن کمیشن کے سربراہ فراج الحیدری کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کا مجموعی تناسب اکاون فی صد کے قریب ہو سکتا ہے۔ یہ تناسب سنی صوبوں میں امکاناً چالیس فی صد سے شروع ہوکر صوبہ صلاح الدین میں پینسٹھ فی صد تک جاتا ہے۔ صلاح الدین صوبہ معزول اور مرحوم صدر صدام حسین کا صوبہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے مطابق بغداد میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب دستیاب نہیں ہے لیکن اندازاً رجسٹرڈ ووٹوں میں سےچالیس فی صد لوگوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا ہے۔
عراق کے سرکاری اور پرائیویٹ ٹیلی ویثن چینلوں کے مطابق وزیر اعظم نوری المالکی کے حمایتیوں کو کئی صوبوں میں سبقت حاصل ہونے کا واضح امکان ہے۔ اِن میں خاص طور سے نجف اور بصرہ شامل ہیں جو انتہاپسند لیڈر مقتدی الصدر کے گڑھ تصور ہوتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے والوں کے انٹرویوز بھی اِس رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ بصرہ اور نجف میں کئی ووٹ ڈالنے والوں نے اعلانیہ کہا کہ مالکی نے جس انداز میں دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اُس کے بعد اُن کو ووٹ دینا درست اور جائز ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نوری المالکی کے حق میں شیعہ صوبوں کے ووٹروں کا جانا اِس لئے بھی ہے کہ اُن کو عراق کی سب سے بڑ ی شیعہ سیاسی جماعت سپریم عراقی کونسل کی حمایت حاصل ہے اور یہی جماعت مرکز میں قائم حکومت کی سینئر پارٹنر ہے۔ اِس رجحان سے یہ عام تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ اِس سال کے آخر میں ہونے والے مرکزی الیکشن میں بھی نوری المالکی کو عوامی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی سپریم عراقی کونسل کی حمایت میں عراق کے شیعہ عقیدے کے مذہبی عمائدین کی بڑی تعداد ہے۔
اِسی طرح عراق کے سنی علاقوں میں، خاص طور سے مغربی انبار صوبے کے سنی قبائلیوں کی القائدہ کے خلاف حکومتی پالیسیوں کی حمایت اور عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح مزاحمت کے تناظر میں اُن کو بھی عوامی تائید حاصل ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اِن سنی قبائلی لیڈروں کی سن دو ہزار چھ میں بنائی گئی کونسل کا مزاحمت کاروں کے خلاف کردار خاصا اہم ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ قبائلی لیڈر اب اِس پوزیشن میں ہیں کہ وہ صوبائی کونسلوں میں خاصی نشستیں حاصل کرلیں گے اور اِس سے وہ اپنے علاقے میں اثر و رسوخ کو مزید وسعت اور استحکام دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سن دو ہزار پانچ کے عام انتخابات کا سنیّوں کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا تھا۔
عراق کے اندر کُل اٹھارہ صوبے ہیں۔ تین کرد آبادی والے خود مختار صوبوں میں الیکشن کچھ عرصے بعد شیڈیول ہے اور تیل کی دولت سے مالا مال کِرکُوک میں نسلی گروپوں کے درمیان تقسیمِ حکومت کا فارمولا ابھی تک نزاع کا باعث بنا ہوا ہے اور اِس وجہ سے وہاں انتخابات ملتوی کردیئے گئے ہیں۔