عراق جنگ اور خواتین کی حالت زار
12 جولائی 2009خواتین کو مساوی حیثیت دلوانے کا عزم بھی اس دور کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا- تاہم گزشتہ چھ سالوں میں عراق میں خواتین کی اکثریت کی صورتحال مزید خراب اور مشکل تر ہوئی ہے۔
روز بروز یہ امر واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ سن 1990ء سے اقتصادی پابندیوں سے دوچار اور سن 2003ء سے غیر ملکی فوجی دستوں کی موجودگی والے ملک عراق میں سب سے زیادہ نقصان خواتین کو ہی پہنچا ہے۔
روزمرہ زندگی
ان دنوں بغداد میں دن کے وقت درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے- ایئرکنڈیشنرز اور ریفریجریٹرز کے لئے نہ تو بجلی میسر ہے نہ ہی پینے کا صاف پانی کافی مقدارمیں دستیاب ہے۔ ناقص طبی سہولیات اور ان کے لئے بھی مالی وسائل ناکافی۔ ایسے میں معاشرے میں خواتین ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تنہا کھڑی دکھائی دے رہی ہیں- نہ تو انہیں ان کے شو ہروں، نہ ہی بیٹوں اور والدوں سے کسی قسم کی مدد مل رہی ہے- اقتصادی پابندیوں، جنگ اور تشدد کے سبب عراق عورتوں کا ملک بن کر رہ گیا ہے- صرف بغداد جیسے بڑے شہر میں بیوہ خواتین کی تعداد تین لاکھ ہے-
ایک اندازے کے مطابق مرکزی اور جنوبی عراق میں دو تہائی آبادی خواتین پر مشتمل ہے- ان عورتوں میں سے اکثریت کو اپنے بچوں کا نان و نفقہ پورا کرنے کے لئے تن تنہا جدوجہد کرنا پڑتی ہے- جان جوکھوں میں ڈال کر یہ عورتیں اپنے گھروں سے پیسہ کمانے نکلتی ہیں- انہیں مسلح حملوں، راہزنی، اغواء کے واقعات اور قتل کئے جانے تک کے خطرات کا سامنا رہتا ہے-
ایک عراقی نژاد مصنفہ اور جینڈر ایشوز کی ماہر نادیہ العلی لندن کے اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز سے منسلک ہیں- وہ یقین کے ساتھ کہتی ہیں کہ عراقی لڑکیوں اور خواتین کی روز مرہ زندگی کی صورتحال بہت ہی خراب ہوچکی ہے اور اس کی وجہ، اُن کے بقول، عراق پر غیر ملکی فوجی قبضہ ہے۔"مختلف عسکریت پسند گروپوں کے مابین سنگین جنگ کے تناظر میں عورتیں سب سے بڑا ہدف بنی ہیں- لوگ کہتے ہیں کہ عراق کے بہت سے حصے اب کافی حد تک محفوظ ہیں، ہاں، ایسا ہے، لیکن ان علاقوں میں مختلف گروپ محفوظ ہوگئے ہیں، میرا مطلب ہے مسلح مرد، جو سڑکوں کو کنٹرول کرتے ہیں، عورتوں کے لباس اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی رکھتے ہیں اور یہ کافی حد تک دوسرے گروپوں کے ساتھ سرحد بندی کے لئے خواتین کو استعمال کرتے ہیں- خواتین اس صورتحال سے بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں- ماضی میں یہ ہر عوامی زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لیتی تھیں- یہ سب سابق دور حکومت میں عام تھا- جب سے عراق پر پابندیاں لگی ہیں، تب سے پیشہ ور خواتین، جیسے کہ ڈاکٹرز اور ماہرین تعلیم وغیرہ، ہر کسی کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگی اور سول سوسائٹی کی بہت سی سرگرم عورتوں کو اسلامی انتہا پسندوں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جانے لگا-"
چند خاص علاقوں پر کنٹرول کے سلسلے میں اسلامی گروپوں کے مابین جنگ میں ترجیحی ہدف خواتین ہی ہوتی ہیں اور اکثر و بیشتر یہی سننے کو ملتا ہے کہ عراق پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہو گیا ہے-
ماضی اور حال
نادیہ العلی اس امر پر زور دیتی ہیں کہ 80 کے عشرے میں عراقی خواتین کا شمار عرب دنیا کی تعلیم یافتہ اور روشن خیال عورتوں میں ہوتا تھا- آج صورتحال اس کے بر عکس ہو چکی ہے- سیاسی اور اقتصادی محرومیوں کے شکار مرد اپنے خاندانوں کی ضروریات پورا نہیں کر پا رہے۔ ایسے میں ان کا بس محض ان کی عورتوں پر ہی چلتا ہے، جنہیں وہ دباؤ میں رکھتے ہیں- نادیہ العلی نے اپنی تازہ ترین کتاب میں 120 عراقی خواتین سے سن 2003 ء میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کے اب تک کے تجربات کے بارے میں کئے گئے سروے کو شامل کیا ہے- حقوق نسواں کے لئے سرگرمی سے کام کرنے والی اسکالر نادیہ العلی کا ماننا ہے کہ عراق میں پایا جانے والا پاور اسٹرکچر یا سیاسی اختیارات کا ڈھانچہ ہی نہیں بلکہ سن 2003 ء کا عراق، امریکی قبضہ اور عالمی سطح پر امریکہ کے غلبے کے دعوے، دراصل عراق میں زن بیزاری اور پدر سری روایات کو مزید تقویت دینے کا باعث بنے ہیں: "ذرا مختلف تناظر میں یہ چیز ایک قسم کی دستاویزی شکل اختیار کر چکی ہے، ایسا ہی عراق میں بھی ہوا ہے- اس معاشرے میں عسکریت پسندی کی تاریخ کا اتصال پایا جاتا ہے- سابقہ حکومت کے دور میں جب عراق پر عسکریت پسندی کا غلبہ ہوا، اس وقت سے ہی اس معاشرے میں پدر سری روایات کو بھی فروغ ملنا شروع ہوا- لیکن اب عراق پر قبضے اور ہر سطح پر اسلحے کی موجودگی سے پدر سری کا دائرہ وسیع تر ہوگیا ہے-"
اچھے پہلو
تاہم عراق کے ہر علاقے میں خواتین کو ایک جیسے خطرات اور صورتحال کا سامنا نہیں ہے- شمالی عراق میں گزشتہ چند سالوں کے دوران سیاسی طور پر سرگرم ملازم پیشہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے- تاہم شمالی عراق میں بھی عوتوں کو پدرسری تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے- ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ ترین رپوٹ“Trapped by violence“ میں ایک 17 سالہ یزیدی گروپ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کا واقعہ درج ہے- دعا خلیل اسود کو اپریل سن 2007 ء میں موصل کے نزدیک ایک گاؤں میں دن دہاڑے ایک مرکزی شاہراہ پر اس کے مرد رشتہ داروں نے سنگسار کردیا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کو اس واقعے کی خبر تھی تاہم انہوں نے ان مردوں کو نہیں پکڑا، غالبا قبائلی جنگجوؤں کے خوف سے-
دعا خلیل اسود کے قاتل آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں- کسی کو بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا-
کارین ملودوخ ماہر نفسیات ہیں اور ان دنوں برلن کے معروف تحقیقی ادارے سینٹرآف موڈرن اوریئنٹ میں شمالی عراق کے قتل عام میں بچ جانے والوں کے بارے میں تحقیق کر رہی ہیں- یہ ٫ ہاؤکاری ٬ نامی ایک انجمن میں سرگرم بھی ہیں- یہ انجمن شمالی عراق میں خواتین کے متعدد پروجیکٹس کی مدد بھی کر رہی ہے: "حقیقت میں ایسا ہی ہے کہ عراقی معاشرے کی بظاہر ترقی کے باوجود یہ مسئلہ شہروں تک میں مسلسل پایا جاتا ہے کہ خاندانی معاملات میں عورتیں ابھی تک مردوں کے ماتحت ہیں، مزاحمت کاری کی صورت میں خواتین کو سخت قسم کی پابندیوں کے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے- یہ کرد خواتین کی تحریک کا اہم ترین موضوع ہے- خواتین کے مختلف گروپ اس ضمن میں عورتوں کے شہری حقوق سے متعلق قوانین میں ترامیم کی کوششیں کر رہی ہیں-"
تاہم نادیہ العلی نے اس امر کو مثبت قرار دیا ہے کہ عراق کی سلامتی کی ابتر صورتحال اور وہاں کی خواتین کو لاحق خطرات کے باوجود حقوق نسواں کے لئے سرگرم متعدد ادارے کام کر رہے ہیں- ان میں سے 80 نے مل کر ایک نیشنل یا قومی نیٹ ورک بنا لیا ہے- نادیہ العلی کا کہنا ہے کہ ان اداروں کو بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کی اشد ضرورت ہے، خاص طور سے مادی اور مالی امداد کی- کارین ملودوخ نے بھی عراقی خواتین کے لئے مغربی ممالک کی تائید و حمایت پر زور دیا ہے- ان کے مطابق اس امر کا ادراک ضروری ہے کہ عراق میں مختلف علاقوں کی عورتوں کو مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ مسائل بہت حد تک علاقائی ہیں- مثلا عراق کے وسطی علاقوں کی خواتین کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے سب سے پہلے وہاں سے تشدد کا خاتمہ ضروری ہے جبکہ جنوبی عراق میں عورتوں، خاص طور سے اہل تشیع خواتین کے لئے، ان کے علاقے میں شدت پسندی میں اضافہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے-
کردستان کی خواتین شہری حقوق کے قوانین میں اصلاحات کی جدو جہد کر رہی ہیں تاکہ انہیں سیاسی عمل میں حصہ لینے کا موقع مل سکے-
مجموعی طور پر جنگ سے تباہ حال ملک عراق کی خواتین کی مدد اسی وقت موثر طور پر کی جا سکتی ہے جب ان کے مختلف النوع مسائل کا باریک بینی سے اندازہ لگایا جائے اور اس کے بعد یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ بین الاقوامی برادری سے یہ عورتیں کس قسم کی امداد کی توقعات رکھتی ہیں-