عراق: سنی جہادیوں کا مقبوضہ علاقے میں نظام خلافت قائم کرنے کا اعلان
30 جون 2014القاعدہ سے نسبت رکھنے والی انتہا پسند تنظیم ’اسلامی ریاست برائے عراق و شام‘ نے مقبوضہ علاقوں میں نظام خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان مقبوضہ علاقوں میں شام اور عراق کے وہ شہر اور قصبے ہیں، جو دونوں ملکوں کی سرحدوں کے آرپار واقع ہیں۔ اس کے علاوہ عسکریت پسند تنظیم اسلامی ریاست برائے عراق و شام نے اپنا نام بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اِس تنظیم نے اپنے لیے نیا نام ’اسلامی ریاست‘ رکھا ہے۔ مبصرین کے مطابق عراق میں فعال اس انتہا پسند تنظیم نے نظام خلافت کے قیام کا اعلان کر کے جہاں القاعدہ کی مرکزی قیادت کو کھلا چیلنج کیا ہے، وہاں انتہائی قدامت پسند خلیجی عرب ریاستوں کے لیے بھی سکیورٹی رسک بن گئی ہے۔
شام اور عراق کے مقبوضہ علاقوں میں نظام خلافت قائم کرنے کے بعد موجودہ انتہا پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور سابقہ اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے سربراہ ابُوبکر البغدادی نے خلیفہ ہونے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح وہ اِس خود ساختہ ریاست کے سربراہ بن گئے ہیں۔ اِس تنظیم کے ترجمان ابُو محمد العدنانی نے ابُو بکر البغدادی کے بارے میں کہا کہ وہ دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں، اُن کے امام اور خلیفہ ہیں۔ عراق میں متحرک اس جہادی تنظیم کے ترجمان کا بیان کئی زبانوں میں ترجمہ کر کے جاری کیا گیا ہے۔
ابو محمد العدنانی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ خلافت کے اعلان سے ہی عراق و شام کے الفاظ تنظیم کے نام سے ہٹا دیے گئے کیونکہ اسلامک اسٹیٹ کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔ العدنانی نے کہا کے یہ اب لازم ہے کہ دنیا بھر کے تمام مسلمان خلیفہ ابُوبکر البغدادی کی بیعت کرتے ہوئے اُن کی امداد و حمایت کریں۔ العدنانی کے مطابق خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اب تمام امارات، گروپوں، ریاستوں اور تنظیموں کا قانونی اور جائز ہونا ختم ہو گیا ہے۔ اور یہ تمام نئے خلیفہ کی اتھارٹی کے تابع ہیں۔ یہ امر اہم ہے سابقہ اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے لشکریوں نے عراقی سرحد پر واقع شامی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد عراق میں پیشقدمی کی تھی۔
امریکی تھنک ٹینک اور عالمی امُور کے تحقیقی ادارے برُوکنگز کے دوہا مرکز کے تجزیہ کار چارلس لِسٹر کا کہنا ہے کہ جو بھی اِس صورت حال کے حوالے سے حتمی رائے قائم کی جائے، قطع نظر اِس کے خلافت کے قیام کا اعلان امریکہ میں ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی سب سے اہم جہادی پیش رفت ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے اداروں نے سابقہ اسلامی ریاست عراق و شام کی جانب سے سویلین اور عراقی فوج و پولیس کے اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر جاری ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تنقید و مذمت کی ہے۔ شام میں بھی اِس گروپ نے مخالفین کی گردن زدنی کے علاوہ انہیں مصلوب کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے سیاسی تجزیہ کار عبدالخالق عبداللہ نے عراق میں پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے کہا کہ خلافت کے قیام کی بات اُس حلقے کے مسرت کا باعث ہو سکتی ہے، جو اس کا خواب دیکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن حقیقت میں البغدادی، اسلامی اسٹیٹ برائے عراق و شام کے اندر اتنا دم خم نہیں کہ وہ اسلامی ریاست کو قائم کر سکیں۔ عبدالخالق عبداللہ کا مزید کہنا ہے کہ البغدادی میں اتنی سوجھ بوجھ ہے اور نہ ہی ان کی اتنی ساکھ ہے جتنی کہ بن لادن کی تھی۔ ایک اور امریکی تھنک ٹینک بیکر انسٹیٹیوٹ کے مشرق وسطیٰ کے ماہر کرسٹیان اُلرشسٹن نے خلافت کے قیام کے جاری ہونے والے بیان کو خلیجی ریاستوں کے استحکام کے لیے براہ راست ایک خطرہ قرار دیا ہے۔
اُدھر اتوار کے روز بھی عراقی فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے تِکریت میں جہادیوں کو نشانہ بنایا لیکن زمینی فوج کو پیشقدمی میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا اور اُس نے جنگی حکمت عملی کے تناظر میں پسپائی اختیار کرتے ہوئے قریبی شہر دجلہ میں ٹھکانہ بنا لیا ہے۔
دجلہ کا چھوٹا شہر تِکریت سے پچیس کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ تِکریت کے نواحی علاقے قُدسیہ میں بھی فریقین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ عراقی فوج کے ترجمان قاسم المُوسوی کا کہنا ہے کہ تِکریت یونیورسٹی پر فوج کا قبضہ بدستور قائم ہے۔ المُوسوی کے مطابق تِکریت پر مکمل قبضے کے حصول میں نصب شدہ بارودی مواد کو ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور اِس کے بعد بھرپور پیشقدمی کی جائے گی۔