عراق میں خونریزی، امریکا کے لیے نیا امتحان
25 مئی 2013عراق میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اس کشیدگی کو ہمسایہ ملک شام میں جاری خانہ جنگی سے ہوا ملی ہے۔ اس طرح عراق میں تشدد اور خونریزی کا سلسلہ بہت بڑھ گیا ہے۔
امریکی حکام اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کے مطابق عراق میں موجودہ خونریزی دسمبر 2011ء میں وہاں سے آخری امریکی فوجی دستوں کی واپسی کے بعد سے اب تک کی سب سے اونچی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ اب عراق میں سنی مسلمانوں کی طرف سے بغداد میں شیعہ مسلمانوں کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں دوبارہ زور پکڑ چکی ہیں۔
عراق کے ہمسایہ ملک شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک قریب 80 ہزار انسان مارے جا چکے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ عراق میں داخلی سلامتی کی صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات نے امریکی حکام کو اس امر پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ پس پردہ رہتے ہوئے خونریزی میں کمی کی کوششیں کریں اور حریف عراقی گروپوں کو دوبارہ سیاسی مذاکرات کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیں۔
امریکا نے عراق کی آٹھ سالہ جنگ کے دوران وہاں سینکڑوں بلین ڈالر خرچ کیے۔ اس عرصے میں وہاں قریب ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی مارے بھی گئے۔ واشنگٹن نے یہ اس لیے کیا کہ توانائی کے قدرتی ذرائع سے مالا مال عراق کو، جس کی اسٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے، جمہوری سوچ اور جمہوری طرز حکومت کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جا سکے۔
لیکن عراق باشندے آپس میں اقتدار میں شراکت کے کسی مستقل سمجھوتے پر اتفاق رائے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بات اس عرب ریاست کی طویل المدتی بنیادوں پر سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ عراق سے متعلق کوئی بھی معاملہ ہو، صدر باراک اوباما کے سب سے اہم معاون اور نمائندے ان کے نائب جو بائیڈن ہوتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق گزشتہ جمعرات اور جمعے کو نائب صدر جو بائیڈن نے کئی اہم عراقی رہنماؤں سے ٹیلی فون پر تفصیلی بات چیت کی۔ ان میں وزیر اعظم نوری المالکی، عراقی کردوں کے رہنما مسعود بارزانی اور ملکی پارلیمان کے اسپیکر بھی شامل تھے۔
مالکی کے ساتھ بات چیت میں جو بائیڈن نے خاص طور پر عراق میں سلامتی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ بائیڈن کے دفتر کے مطابق اس گفتگو میں امریکی نائب صدر نے اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ سیاسی دھارے میں شامل زیادہ سے زیادہ جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو ساتھ ملا کر چلنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔
وائٹ ہاؤس یہ نہیں چاہتا کہ اس کے لیے عراق میں پائے جانے والے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے۔ اس لیے وہ عراق کو زیادہ سے زیادہ پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن امریکا کو عراق کے حوالے سے لگنے والے دھچکوں کی وجہ سے اوباما کے ناقدین کی تنقید بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس بارے میں تنقید کہ اوباما نے عراق سے تمام امریکی فوجی نکال لیے اور وہاں کوئی چھوٹی، باقی ماندہ فورس نہیں چھوڑی۔
ij / km (Reuters)