عراق میں دو سُنی مساجد پر بم حملے سعودی اقدام کا ردعمل؟
4 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فوجی یونیفارم پہنے مسلح افراد نے گزشتہ شب عراقی دارالحکومت بغداد کے جنوبی علاقے حِلہ کی دو سُنی مساجد کو دھماکوں کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ ایک مؤذن کو اسکندریہ کے علاقے میں اس کے گھر کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
بغداد سے قریب 80 کلومیٹر جنوب میں واقع شہر حلہ کے ایک پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ برکیلی کے علاقے میں واقع عمار بن یوسف مسجد کو اتوار تین دسمبر کو نصف شب کے بعد بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پولیس افسر کے مطابق، ’’دھماکے کی آواز سننے کے بعد جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ مسجد میں مقامی طور پر تیار کردہ بم نصب کیے گئے تھے۔‘‘ پولیس کے اس کپتان کا مزید کہنا تھا، ’’مقامی لوگوں نے بتایا کہ فوجی وردیوں میں ملبوس لوگوں کے ایک گروپ نے یہ آپریشن کیا تھا۔‘‘ اس افسر کے مطابق دھماکے کی وجہ سے 10 قریبی گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
اس کے علاوہ حلہ کے مضافات میں سِنجار نامی گاؤں میں قائم الفتح مسجد کو بھی اسی طرح کے دھماکے سے نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس افسر کے مطابق فوجی وردیوں میں ملبوس تین یا چار افراد نے یہ کارروائیاں کیں: ’’حملہ آوروں نے سخت سردی کا فائدہ اٹھایا کیونکہ اس وقت باہر کوئی موجود نہیں تھا۔‘‘
حلہ کے طبی ذرائع کے مطابق ان دھماکوں کے نتیجے میں تین افراد زخمی بھی ہوئے۔ دونوں مساجد کو بم دھماکوں کا نشانہ بنانے اور اسکندریہ میں ایک مؤذن کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے ان واقعات کی ذمہ داری ابھی تک کسی کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
بغداد سے 40 کلومیٹر جنوب میں واقع اسکندریہ کی پولیس کے ایک ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ سنّی مسلک سے تعلق رکھنے والے مؤذن طحہٰ الجبوری کو ان کے گھر کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔ ایک ڈاکٹر نے الجبوری کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
اسکندریہ سنی اور شیعہ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے اور گزشتہ دہائی کے دوران وہاں فرقہ ورانہ تشدد کے باعث بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کے باعث اسے ’موت کی مثلث‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ ہفتہ دو جنوری کو سعودی عرب میں ایک شیعہ مذہبی رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد عراق میں بھی شدید احتجاج دیکھا گیا ہے۔ شیعہ سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے تو متفقہ طور پر شیخ نمر کی سزائے موت کی سخت مذمت تو کی ہی گئی ہے لیکن سنی اقلیت کے بہت سے رہنماؤں نے بھی سعودی عرب کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔