1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں چالیس سے زائد مجرموں کو پھانسی، اقوام متحدہ کی تشویش

عابد حسین11 اکتوبر 2013

اقوام متحدہ نے عراق میں کم از کم 42 ’دہشتگردوں‘ کو پھانسی کی سزا دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19xkO
ARCHIV - Zwei Seile hängen an einem Galgen in einem Hinrichtungsraum des berüchtigten irakischen Staatssicherheitsgefängnisses Abu Ghraid, 30 km westlich von Bagdad (Archivfoto vom 02.05.2003). Trotz Ächtung der Todesstrafe in den meisten Ländern der Welt sind im vergangenen Jahr weit mehr als 700 Menschen hingerichtet worden. In ihrem jüngsten Jahresbericht zur Todesstrafe listet die Hilfsorganisation Amnesty International für 2009 insgesamt 714 Todesurteile auf. Foto: Marcel Mettelsiefen (zu dpa 4019 und 4024 vom 29.03.2010) +++(c) dpa - Bildfunk+++
Hinrichtungsraum Gefängnis Abu Ghraid Irakتصویر: picture alliance/dpa

عراق میں اسی ہفتے کے دوران منگل اور بدھ کے روز ’’ دہشت گردی اور قتل عام‘‘ میں ملوث تین درجن سے زائد افراد کو دی گئی موت کی سزا کے تحت پھانسیاں دے دی گئیں۔ ایسے مجرموں کی تعداد عراقی سکیورٹی حکام نے 42 بتائی ہے، ان میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ عراقی وزارت انصاف کے مطابق موت کی سزا پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر عدالتی ججوں نے ایک سے زائد مرتبہ دائر کی گئی اپیلوں کی روشنی میں غور کیا اور وہ ہر مرتبہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ سنائی گئی سزا درست ہے اور اس پر حکام کو عمل کرنا چاہیے۔

عراقی حکومت کے مطابق پھانسی پانے والے تمام مجرم گھناؤنے جرائم میں ملوث تھے اور یہ دہشت گردی کے علاوہ قتل عام کے مرتکب ہوئے تھے۔ عراق دنیا بھر میں پھانسی دینے والا تیسرا ملک ہے۔ سب سے زیادہ موت کی سزا دینے والا ملک چین ہے اور اُس کے بعد ایران ہے۔ سن 2011 میں عراق میں کُل 68 مجرموں کو پھانسیاں دی گئی تھیں۔ گزشتہ برس بھی عراق میں 129 مجرم پھانسی گھاٹ تک پہنچے تھے۔ ایک ہفتے کے دوران 42 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد رواں برس عراق میں دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد 132 ہو گئی ہے۔

Anschlag in Bakuba Irak am 13. September 2013
عراقی وزیر انصاف حسن الشِمری کے مطابق پھانسی پانے والے مجرم معصوم انسانوں کے قاتل تھےتصویر: picture alliance/AP Photo

عراقی وزیر انصاف حسن الشِمری نے 42 افراد کو دی جانے والی پھانسیوں کے حوالے سے واضح کیا کہ تمام مجرموں پر دہشت گردانہ جرائم کے الزامات کو استغاثہ نے شہادتوں کی روشنی میں ثابت کر دیا تھا۔ الشمری کے مطابق پھانسی پانے والے مجرم معصوم انسانوں کے قاتل تھے اور ان کے جرائم کی وجہ سے ریاستی استحکام کو شدید نقصان کا سامنا رہا ہے۔ وزیرانصاف نے یہ بھی کہا کہ ان مجرموں کی مجرمانہ وارداتوں کے باعث عوام الناس میں خوف و دہشت اور افراتفری بھی پیدا ہوئی تھی۔ عراق رواں برس دہشتگردانہ واقعات کی لپیٹ میں ہے اور چھ ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔

بھانسیاں دینے کے حکومتی فیصلے پر اقوام متحدہ کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عراق میں پھانسی دینے کے عمل کو پریشان کُن قرار دیا ہے۔ دونوں اداروں نے عراق کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ پھانسی کی سزا دینے کے سلسلے کو فوری طور پر معطل کرے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کے شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر حسیبہ حاج الصحراوی کا کہنا ہے کہ عراق میں پھانسی دینے کے سلسلے میں جو اضافہ ہوا ہے وہ حیران کن اور پریشان کر دینے والا ہے۔ الصحراوی کے مطابق موت کی سزا اکثر و بیشتر غیر شفاف عدالتی کارروائی کے بعد سنائی جاتی ہے۔