عراق کے لئے جولائی ایک خونی مہینہ
1 اگست 2010سلامتی کے شعبے کے عراقی ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ماہ جولائی میں عراق میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کی مرکزی وجہ مارچ کے انتخابات کے بعد نئی مرکزی حکومت کی عدم تشکیل ہے۔ اس حکومتی انتظامی خلا کا بھرپور فائدہ عراق دشمن قوتوں نے اٹھایا ہے۔ سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ جولائی میں عراق کے 535 افراد مختلف خونی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہلاک ہوئے۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد گزشتہ دو سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
بین الاقوامی مبصرین بھی عراقی ماہرین سے متفق ہیں اور ان کا مزید کہنا ہے کہ عراق کے اندر تاحال نئی حکومت کی تشکیل کے آثار دور دور دکھائی نہیں دے رہے اور امریکہ نے اہم بڑے شہروں سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا ہے۔ اس انتظامی خلا کی وجہ سے اگست کے دوران بھی جولائی کے پرتشدد واقعات کا تسلسل دیکھا جا سکتا ہے۔ برسراقتدار اتحاد کے وزیر اعظم نوری المالکی اور ایاد علاوی ابھی تک کوئی ممکنہ حکومتی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل دونوں لیڈروں کی ملاقات کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکی۔
پانچ سو سے سے زائد ہلاکتیں مئی سن 2008 میں ریکارڈ کی گئی تھیں، جب ہلاکتوں کی تعداد 563 تھی۔ عراق کے دفاع، داخلہ اور صحت کی وزارتوں کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی میں پرتشدد واقعات میں 396 سویلین ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں 89 کا تعلق پولیس سے تھا جبکہ پچاس فوجی تھے۔ اس تعداد کے ساتھ رواں سال کے دوران عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1043 ہو گئی ہے۔ رواں سال کے دوران اب تک ایک سو مزاحمت کار ہلاک کئے گئے ہیں اور955 کو زندہ یا زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جولائی میں چار امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے اور اس طرح عراق میں ہلاک شدہ امریکی فوجیوں کی تعداد 4,413 تک پہنچ گئی ہے۔
جولائی میں القائدہ کے مشتبہ عسکریت پسندوں نے شیعہ زائرین کے جلوس کے ساتھ ساتھ القائدہ مخالف عراقی قبائلی سردار کے حلقے کو بھی نشانہ بنایا۔ کار بموں کا بھی استعمال کیا گیا۔ خاص طور پر دارالحکومت بغداد کے شیعہ آبادی والے علاقے ہدف رہے۔ کربلا اور بعقوبہ کے شہر بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی