’عرب بہار‘ کا دوسرا اور بدنما چہرہ، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
14 اگست 2014ان واقعات کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ عرب ملکوں کی گلیوں میں آمریت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا دنیا بھر میں ساتھ دیا گیا تھا۔ مغربی دنیا کے اخبارات میں ان واقعات کو ’یاسمین انقلاب‘، ’عرب بہار‘ اور ’فیس بک انقلاب‘ جیسی شہ سرخیاں دیتے ہوئے ایک نئے جمہوری اور کثرتِ رائے سے عبارت مشرق وسطیٰ کی نوید سنائی گئی۔
بہت سے مبصرین کا کہنا تھا کہ ایک ’نیا مشرق وسطیٰ‘ جنم لے رہا ہے، اس کے باوجود کہ اس وقت لفظ ’نئے‘ کے معانی واضح نہیں تھے لیکن جس تیزی سے مصر، تیونس اور یمن میں طاقتور مطلق العنان طاقتیں گر رہی تھیں، اس سے واقعی ایک نیا دور شروع ہوتا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اب اس میں سے کیا بچا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں! بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ مشرق وسطیٰ کو ایک ’نیا چہرہ‘ تو ملا ہے لیکن یہ ایک بدنما چہرہ ہے۔
عرب دنیا میں اب صرف خوف ہی واپس نہیں آیا بلکہ ایک ایسے جابرانہ دور کا آغاز ہو چکا ہے، جو دن بدن پہلے سے بھی بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ اس پیش رفت کا آغاز لیبیا کے مسلح تصادم سے ہوا تھا، جس کا راستہ صرف نیٹو کی مسلح کارروائی ہی سے روکا جا سکتا تھا۔ اس جابرانہ دور کا نقطہء عروج شام میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں انقلاب ایک خونی جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کی قیمت لاتعداد انسان اپنی زندگیوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔
اس وقت عرب دنیا میں تاریکی نظر آتی ہے اور صورتحال بڑی حد تک غیر یقینی ہے۔ ’عرب بہار‘ کے دوران پرامن احتجاج کرنے والوں کو منظر سے ہٹایا جا چکا ہے یا پھر ان میں سے ہزاروں افراد جیلوں میں قید ہیں۔ اب ہر طرف خانہ جنگی، تباہی اور نسل کُشی کا دور دورہ ہے۔
اس پیش رفت کے نتائج تلخ ہیں۔ ’عرب بہار‘ کے آغاز میں نظر آنے والی یہ تصویریں کہ مثلاً عیسائی مسلمانوں کی حفاظت کر رہے ہیں یا مسیحیوں کی حفاظت مسلمان کر رہے ہیں، مکمل طور پر غائب ہو چکی ہیں۔ اس کے بجائے اب بڑے پیمانے پر قتل عام، شیعہ یا دیگر مسالک کے مزارات کی تباہی اور مسیحیوں اور یزیدیوں کی اپنے علاقوں سے نقل مکانی کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔ جو کچھ اب ہم دیکھ رہے ہیں، وہ مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ کا تاریک اور افسوس ناک ترین باب ہے۔ ماضی میں بہت سی جنگوں اور تنازعات کے باوجود سنی، شیعہ، مسیحی، یزیدی اور کئی دیگر گروہ ایک ساتھ اور پرامن طریقے سے رہتے آئے ہیں۔
یہ سب کچھ ’عرب بہار‘ کے لیے واقعی ایک تباہ کن بیلنس شیٹ ہے۔ روس اور چین کی آمرانہ حکومتوں نے ’’عرب بہار‘‘ کو ویسے بھی کوئی محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا۔ ایران اس معاملے میں شروع ہی سے اُن بغاوتوں کا حامی تھا، جو اس کے نظریات اور مفادات کے حق میں تھیں۔ اور مغربی دنیا اب مشرق وسطیٰ میں فعال جمہوریت کو فروغ دینے کی بجائے وہاں استحکام لانے کی کوششوں میں ہے اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ اس بارے میں عرب دنیا کا گلہ بجا ہے کہ جمہوریت یا ’عرب بہار‘ کے لیے تمام تر ہمدردی کے باوجود نہ تو مغرب، نہ ہی امریکا اور نہ ہی سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیساں تبدیل کیں۔ لیکن اب ان شکوے شکایتوں سے موجودہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک مرتبہ پھر عرب عوام کو ہی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ ان ملکوں کی موجودہ حکومتی قیادتیں نااہل ہیں یا پھر ضروری اقدامات اٹھانا نہیں چاہتیں۔