عرب دنیا کا پہلا خلائی مشن، نوجوانوں کے لیے مشعل
12 جون 2020اس مشن کو متحدہ عرب امارات کے لیےایک نئی جہت میں ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل یہ عرب ملک بلند و بالا عمارات اور میگا پروجیکٹس کے شعبوں میں غیرمعمولی طور پر ابھرا ہے۔
گزشتہ برس متحدہ عرب امارات نے اپنا پہلا خلانورد خلا میں بھیجا تھا۔ ابوظہبی حکومت کی خواہش ہے کہ ملک میں "سائنس سٹی" قائم کیا جائے، جو بالکل مریخ کے حالات کی نقل ہوگا۔ اماراتی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اب سے قریب ایک صدی بعد سن 2117 تک مریخ پر انسانی بستی کے قیام کا خواہاں ہے۔
اماراتی خلائی مشن کے پروجیکٹ مینیجر عمران شرف نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد سائنسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ خطے کے ثقافتی اور سائنسی اعتبار سے سنہرے دور کا احیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے عرب دنیا کسی دور میں علم و تحقیق کا مسکن ہوا کرتی تھی۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے شرف نے کہا، "متحدہ عرب امارات عرب نوجوانوں کو ایک مضبوط پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ کبھی علم کی آماجگاہ تھے۔"
ان کا کہنا تھا، "بہت سے مذاہب اورمتنوع پس منظر کے افراد عرب دنیا میں ایک شناخت کے ساتھ رہا کرتے تھے جب کہ اب عرب دنیا کے کئی ممالک فرقہ وارانہ اور اقتصادی بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔"
شرف مزید کہتے ہیں، "اختلاف ایک طرف رکھیے۔ خطے کی تعمیر کاعزم کیجیے۔ آپ کی تاریخ شان دار ہے۔ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔"
اماراتی خلائی مشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر سارہ الامیری نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اس پروجیکٹ کے اثرات دور رس ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں، "یہ کوئی قلیل المدتی مشن نہیں بلکہ اصل میں یہ ایک جاری رہنے والا مشن ہے، جس سے حاصل ہونے والی معلومات کئی برسوں تک مفید ہوں گی۔ اس سے متحدہ عرب امارات کے علاوہ عالمی محققین بھی فائدہ اٹھائیں گے۔"
سارہ الامیری کا کہنا تھا کہ اس مشن کے ذریعے مریخ پر موسمیاتی تبدیلیوں کی تصاویر لی جائیں گی اور اس کے لیے تین طرح کے آلات بھیجے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس خلائی مشن میں "انفراریڈ سپیکٹرومیٹر" نصب ہے جو مریخ میں کرہ ہوائی کی نچلی سطح کی پیمائش کرے گا اور وہاں کی درجہ حرارت کا مطالعہ کرے گا۔
اس کے علاوہ ایک انتہائی جدید ترین کیمرہ بھی اس مشن میں موجود ہے، جو مریخ پر اوزن کی تہہ کی تصاویر بنائے گا، جب کہ الٹراوائلٹ یا بالائے بنفشی سپیکٹرومیٹر بھی اس مشن کا حصہ ہے، جس کے ذریعے مریخ کی سطح سے 43 کلومیٹر دور سے اس سیارے پر موجود آکسیجن اور ہائیڈروجن کو ناپا جائے گا۔
الامیری نے بتایا کہ ان آلات کے ذریعے محققین دن کے تمام اوقات میں اس سرخ سیارے کا مشاہدہ کرسکیں گے۔
الامیری نے پانی میں موجود عناصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، "ہم اس مشن کے ذریعے بہتر انداز سے جان پائیں گے کہ کرہء ہوائی کھونے کی وجہ کیا ہے ؟ اور کیا مریخ کا موسمی نظام اس سیارے پر آکسیجن اور ہائیڈروجن کے کم ہونے کی وجہ ہو سکتا ہے؟"
یہ عرب مشن پندرہ جولائی کو جاپانی خلائی مرکز سے روانہ ہو گا جب کہ اس کی واپسی فروری 2021 میں ہوگی۔
اس مشن کے پروجیکٹ مینیجر شرف نے کہا کہ اگر جولائی کے وسط اور اگست کے آغاز کے درمیانی عرصے میں کسی وجہ سے اس مشن کی روانگی نہ ہو پائی، تو پھر ایسے موقع کے لیے دو برس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ مشن ممکنہ طور پر وقت پر روانہ ہو جائے گا۔
ع ت/ ش ج