1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب میڈیا پریشان کن حقائق کو نظر انداز کیوں کر رہا ہے؟  

22 نومبر 2018

سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ کا اہم اور متنازعہ موضوع بھی ہے۔ دو فریق ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ ان کے موقف میں تبدیلی کی اہم وجہ نظریات سے زیادہ مالی تعاون یا سرمایہ کاری ہے۔

https://p.dw.com/p/38hn1
Bildkombo Saudi-Arabien | Jamal Khashoggi & Mohammed bin Salman

سعودی اخبار الوطن نے بڑی بڑی شہہ سرخیوں کے ساتھ بدھ کے روز یہ خبر چھاپی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے کی طرح سعودی عرب کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ اس اخبار نے ٹرمپ کے بیان کے اس حصے کو نہیں چھاپا، جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں یہ علم نہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس قتل کے بارے میں پتا تھا یا نہیں، ’’شاید انہیں علم تھا یا شاید نہیں‘‘۔ الوطن نے ٹرمپ کے بیان کو بہت احتیاط سے چھاپا۔

دوسری جانب سعودی نیوز العربیہ نے بھی اس کہانی کو اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی۔ تاہم العربیہ نے ٹرمپ کے بیان کے یہ حصہ بھی شائع کیا کہ ہو سکتا کہ اس قتل کے تمام تر حقائق کبھی بھی منظر عام پر نہیں آسکیں۔

Screenshot Al-Arabiya
تصویر: Al-Arabiya

تاہم الوطن اخبار کی طرح العربیہ نے بھی ٹرمپ کے بیان کو اس حصے پر خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی، جس میں سعودی ولی عہد اور ٹرمپ کے درمیان فاصلہ واضح ہو رہا ہے۔

قطری ٹی وی چینل الجزیرہ نے اس بیان کی کچھ الگ انداز میں تشریح کی، ’’یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اور امریکا کے باہمی روابط واشنگٹن یا ریاض سے تعلق رکھنے والی انفرادی شخصیات کی سیاسی بقا پر منحصر نہیں ہیں۔‘‘ الجزیرہ نے اس بیان کو محمد بن سلمان پر ایک حملے کے طور پر دیکھا ہے۔

ٹرمپ کے بیان کی مختلف تشریحات عرب ذرائع ابلاغ میں تقسیم کو واضح کر رہی ہیں۔ یہ تقسیم کسی نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا تعلق معاشی اور سیاسی ہے۔ عرب میڈیا اپنے چینلز یا اخبارات میں سرمایہ کاری یا انہیں مالی تعاون فراہم کرنے والوں اور سیاسی قیادت کی ضروریات کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق عرب میڈیا کو صرف غیر اہم موضوعات پر آزادی حاصل ہے۔