عرب میڈیا پریشان کن حقائق کو نظر انداز کیوں کر رہا ہے؟
22 نومبر 2018سعودی اخبار الوطن نے بڑی بڑی شہہ سرخیوں کے ساتھ بدھ کے روز یہ خبر چھاپی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے کی طرح سعودی عرب کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ اس اخبار نے ٹرمپ کے بیان کے اس حصے کو نہیں چھاپا، جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں یہ علم نہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس قتل کے بارے میں پتا تھا یا نہیں، ’’شاید انہیں علم تھا یا شاید نہیں‘‘۔ الوطن نے ٹرمپ کے بیان کو بہت احتیاط سے چھاپا۔
دوسری جانب سعودی نیوز العربیہ نے بھی اس کہانی کو اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی۔ تاہم العربیہ نے ٹرمپ کے بیان کے یہ حصہ بھی شائع کیا کہ ہو سکتا کہ اس قتل کے تمام تر حقائق کبھی بھی منظر عام پر نہیں آسکیں۔
تاہم الوطن اخبار کی طرح العربیہ نے بھی ٹرمپ کے بیان کو اس حصے پر خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی، جس میں سعودی ولی عہد اور ٹرمپ کے درمیان فاصلہ واضح ہو رہا ہے۔
قطری ٹی وی چینل الجزیرہ نے اس بیان کی کچھ الگ انداز میں تشریح کی، ’’یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اور امریکا کے باہمی روابط واشنگٹن یا ریاض سے تعلق رکھنے والی انفرادی شخصیات کی سیاسی بقا پر منحصر نہیں ہیں۔‘‘ الجزیرہ نے اس بیان کو محمد بن سلمان پر ایک حملے کے طور پر دیکھا ہے۔
ٹرمپ کے بیان کی مختلف تشریحات عرب ذرائع ابلاغ میں تقسیم کو واضح کر رہی ہیں۔ یہ تقسیم کسی نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا تعلق معاشی اور سیاسی ہے۔ عرب میڈیا اپنے چینلز یا اخبارات میں سرمایہ کاری یا انہیں مالی تعاون فراہم کرنے والوں اور سیاسی قیادت کی ضروریات کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق عرب میڈیا کو صرف غیر اہم موضوعات پر آزادی حاصل ہے۔