عزیر بلوچ فوج کی تحویل میں لیکن معاملہ ’ظاہر سے مختلف‘
13 اپریل 2017ماضی میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب رہنے والے عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی پراسرار طور پر گمشدہ ہیں۔ مبصرین ان دونوں معاملات کو انتخابی سیاست کی پیش بندی قرار دیتے ہیں۔
بدنام زمانہ جرائم پیشہ، رحمان ڈکیت کا مقامی ٹرانسپورٹر دوست، فیض محمد ماما جب ارشد پپو کے گینگ کے ہاتھوں قتل ہوا تو اس کا بیٹا عزیر جان بلوچ رحمان کے گینگ میں شامل ہوا اور 2010 میں رحمان کی موت کے بعد گینگ کا سرغنہ بن گیا۔ سردار بننے سے قبل عزیز کے خلاف صرف تین مقدمات درج تھے جبکہ گزشتہ چھ برس میں اس کے خلاف مزید 54 مقدمات درج ہوئے جو تمام کے تمام سنگین نوعیت کے ہیں۔ لیکن عزیر بلوچ کی ایک برس کی حراست کے دوران پولیس ایک بھی الزام میں اسے سزا نہیں دلوا سکی۔ دو مقدمات میں عزیر عدالت سے بری ہوگیا جبکہ تین مقدمات کو خود پولیس نے ختم کردیا۔
گیارہ اپریل کی رات جب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سوشل میڈیا پر عزیر کو فوج کی جانب سے تحویل میں لینے اور اس کے خلاف غداری اور دشمن ملکوں کی ایجنسیز کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تو مقامی میڈیا میں جیسے بھونچال آگیا۔ سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں، ’’عزیر بلوچ کا مقدمہ تو فوجی عدالت میں جانا ہی تھا اور جب مقدمہ فوجی عدالت میں زیر سماعت ہو تو ملزم طریقہ کار کے مطابق فوج کی تحویل ہی رہتا ہے۔ نئی بات صرف عائد کیا جانے والا الزام ہے کیونکہ عزیر کے خلاف درج مقدمات میں سے اس نوعیت کا پہلے کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے میں صرف بھارتی خفیہ ادارے ہی نہیں بلکہ ایرانی ایجنسیز کا کردار بھی سامنے آئے گا۔ کڑیاں مل رہی ہیں کہ بھارت صرف افغانستان کے ذریعے نہیں بلکہ ایران کے ذریعے بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں ملوث ہے۔ کلبھوشن یادیو ایران سے پاکستان آیا اور ایران کے ذریعے ہی عزیر بھی ملک دشمنوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ یہ معاملہ تحقیق طلب بھی ہے اور راست اقدام کا طالب بھی۔‘‘
سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کہتے ہیں کہ عزیر کے خلاف نئے اور انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کا اس وقت عائد ہونا اور سابق صدر آصف علی زرداری کے تین قریبی ساتھیوں اشفاق لغاری، نواب لغاری اور قادر بخش مری کا اچانک لاپتہ ہو جانا اس تاثر کو جنم دے رہا ہے کہ معاملہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ ہے نہیں۔ عزیر دو ہزار تیرہ تک پیپلز پارٹی کی آنکھ کا تارا تھا، وزیر اعلٰی قائم علی شاہ اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور سمیت پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما عزیر سے ملا کرتے تھے لیکن اب صرف ذوالفقار مرزا عزیز کو بھائی کہتے ہیں۔ ان مبصرین کے مطابق لاتعلقی سے جان بخشی تو ہونے والی نہیں اور عزیر جس جس کا جب جب نام لے گا اس کی حاضری تو ضرور ہوگی۔
مگر پیپلز پارٹی کے کراچی سے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں، ’’عزیر کا مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل کرنے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مقدمہ سندھ حکومت کی سفارش پر ہی منتقل کیا گیا ہے۔ البتہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو اس سے ضرور پریشانی ہوسکتی ہے۔‘‘