عسکریت پسندی پر کیسے قابو پایا جائے، اسلام آباد کانفرنس
8 مارچ 2011پیر 7 مارچ کو اِس کانفرنس کے پہلے روز پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرکاء سے اپیل کی کہ وہ عسکریت پسندی کے خاتمے میں تعاون کریں۔ ساتھ ہی گیلانی نے پاکستانی نوجوانوں پر زوردیا کہ وہ اسلام کی اُن تعلیمات کی پاسداری کریں، جو رواداری اور امن کا درس دیتی ہیں۔
پاکستانی سربراہِ حکومت کی یہ اپیل اُن کی کابینہ کے واحد مسیحی وزیر 42 سالہ شہباز بھٹی کے دن دیہاڑے قتل کے ہولناک واقعے کے بعد سامنے آئی ہے۔ شہباز بھٹی توہینِ رسالت کے متنازعہ قانون کے ناقدین میں سے ایک تھے اور اِسی بناء پر اُنہیں گزشتہ بدھ کو اندھا دھند فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بھٹی سے پہلے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی اِسی متنازعہ قانون پر تنقید کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔
کانفرنس سے اپنے خطاب میں گیلانی نے کہا،’ملک کی موجودہ صورتحال اِس بات کی متقاضی ہے کہ ہم پیغمبر اسلام کے نقشِ قدم پر چلیں، جو رواداری اور بھائی چارے کا درس دیتے تھے‘۔ اِس کانفرنس کا مقصد اُس عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کرنا ہے، جس نے آج کل ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
گیلانی نے کہا کہ شہباز بھٹی کے قاتل مسلمانوں اور مسیحیوں میں دراڑ پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اِن عناصر کو انتباہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام اور پاکستانی آئین اقلیتوں کے حقوق اور اُن کی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔
اِس سہ روزہ کانفرنس میں شریک دیگر مقرر ین نے خود کُش حملوں، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ اسلام میں امن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سینئر اسکالر مفتی ابو ہریرہ محی الدین نے اپنے خطاب میں کہا،’انتہا پسندی، دہشت گردی اور خود کُش حملے ایسی قابل نفرت کارروائیاں ہیں، جن کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسی کارروائیاں اُن تمام باتوں کی نفی کرتی ہیں، جن کا اسلام درس دیتا ہے‘۔ اُنہوں نے کہا کہ کچھ گمراہ عناصر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ جولائی 2007ء میں اسلام آباد کی لال مسجد میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوجی دَستوں کی کارروائی کے بعد سے اب تک ملک میں بم دھماکوں، خود کُش حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں تقریباً چار ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ