علم انسان کو فطرت کے بارے میں معلومات مہیا کرتا ہے اور انسانی فطرت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ علم کی افادیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تاریخ میں حکمراں طبقے نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے عوام پر علم کے حصول کے لیے پابندیاں لگا دیں تھیں۔
ہندو مذہب میں ویدوں کی تعلیمات برہمن طبقے تک محدود تھیں اور یہ حکم تھا کہ اگر کوئی شودر ویدوں کے الفاظ کو سن لے تو اُس کے کانوں میں پگلا ہوا سیسہ ڈالا جائے۔
مسیحیت میں بھی بائبل کی تعلیمات مذہبی طبقے تک ہی محدود تھیں۔ جب ولیم ٹنڈیل ( 1536) نے انگریزی میں بائبل کا ترجمہ کرنا شروع کیا تو چرچ نے اسے زندہ جلانے کا حکم دیا۔ جب 1715 میں مارٹن لوتھر نے چرچ سے بغاوت کی تو اس نے بائبل کا جرمن ترجمہ شائع کرایا۔ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کے پوتے نے جب قرآن کا پہلی مرتبہ اُردو ترجمہ کیا تو مولویوں نے ان کی پٹائی کردی۔
تاریخ میں مذہبی علوم پر علما، راہیبوں اور پجاریوں کا قبضہ رہا ہے۔ تا کہ لوگ مذہبی معلومات کے لیے ان سے رجوع کریں۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب نے (1707) اپنے عہدِ حکومت میں فتوائے عالمگیری کو مرتب کروایا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فتوے کے لیے لوگوں کو مفتیوں کے پاس نہ جانا پڑے۔ مذہبی علوم سے مذہبی طبقے کی اجارہ داری اس وقت ٹوٹی جب یورپ میں تعلیم کا فروغ ہوا تو بائبل کے ترجمے قومی زبانوں میں ہونے لگے۔ اب جب چرچ میں پادری بائبل پڑھتا تھا تو عبادت گزار اپنی ذاتی بائبل کھول کر پادری کا وعظ سنتے اور اگر وہ غلطی کرتا تھا تو اس کی نشاندہی کرتے۔ لیکن مشرقی ممالک میں مذہبی طبقوں کا مذہبی علوم پر تسلّط رہا اورآج تک لوگ اپنے مذہبی مسائل کے حل کے لیے ان ہی سے رجوع کرتے ہیں۔
مذہبی علوم کے علاوہ علم پر بحیثیت مجموعی حکمراں طبقوں کا تسلط تھا۔ مثلاً امریکہ کے ابتدائی دور میں یہ قانون تھا کہ غلاموں کو لکھنے پڑھنے کی آزادی نہ تھی۔ حکومتیں ان کتابوں پر سینسر شپ کے ذریعے پابندیاں لگاتی تھیں، جن میں اُن کے خلاف تنقید ہو یا اُن کے سیاسی نظام کو چیلنج کیا گیا ہو۔ کیتھولک چرچ کی جانب سے ہر سال انڈیکس نامی کتاب شائع ہوتی تھی، جس میں ممنوعہ کتابوں کے نام درج ہوتے تھے اور یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ ان کتابوں کو پڑھنا گناہ کا باعث ہو گا۔
ان تمام پابندیوں کے باوجود باغی دانشور اپنی کتابیں خفیہ شائع کراتے تھے۔ ہمسایہ ملکوں میں شائع کرا کے اپنے ہاں اِسمگل کراتے تھے۔ دانشوروں نے علوم کو محفوظ رکھنے کے لیے انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنا شروع کیا تا کہ علم میں جو اضافے ہوئے ہیں ان کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستی اور باغی دانشوروں کے درمیان تصادم رہا ہے۔ ریاستی دانشوروں کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی لہٰذا تاریخ ہو یا فلسفہ یہ ان علوم کو حکمرانوں کے مفادات کے لیے استعمال کرتے تھے۔
جب یورپ میں قومی ریاست قائم ہوئی تو اس نے تعلیمی اداروں کو قومی بنا کر ان کی آزادی کو سَلب کر لیا۔ اب ریاست کے پاس سب سے بڑا حربہ نصاب کا تھا۔ نوجوان طالب علموں کے لیے ایسا نصاب ترتیب دیا گیا، جو حکمرانوں کے نظریات کا تحفظ کرے۔ اس نصاب سے عورتوں کو خارج کر دیا گیا تھا۔ مذہبی اقلیتوں کو بھی کوئی تحفظ نہیں تھا۔
جو طالب علم اس نصاب کو پڑھ کر علمی زندگی میں آتے تھے۔ تو وہ ذہنی طور پر پسماندگی کا اظہار کرتے تھے۔ اس نصاب کا مقصد یہ تھا کہ عام لوگ حکومت کے وفادار رہیں۔ چاہے حکومت بدعنوان ہی کیوں نہ ہو۔ اُن میں مزاحمت کے کوئی جذبات پیدا نہ ہوں اور نہ ہی اُنہیں اپنے حقوق کا احساس ہو۔
اس لیے اگر حکمران طبقے ان پر اپنی اجارہ داری قائم کر لیں گے۔ تو ادب، فلسفہ، موسیقی، تاریخ اور دوسرے سماجی علوم میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ اس لیے یہ سوال زیرِ بحث آتا ہے کہ علم کو پابندیوں سے آزاد کیے بغیر اس میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہے۔ بادشاہوں اور آمرانہ حکومتوں کی پابندیوں کی وجہ سے علوم ایک جگہ ٹھہر گئے تھے۔
یورپ نے اس وقت علوم میں ترقی کی نئے افکار اور خیالات کو پھیلایا۔ جب وہاں سے چرچ کی بالادستی کا خاتمہ ہوا اور باغی دانشوروں کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے علم کو ترقی پسند نظریات کے لیے استعمال کر سکیں۔ لیکن امریکہ میں آج بھی نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور ہاورڈ زن وہ دانشور ہیں جنہیں اُن کے باغی افکار کی وجہ سے اہم جگہ نہیں دی جا سکی۔
یہی صورتحال ہندوستان اور پاکستان میں باغی دانشوروں کی ہے۔ لیکن یہ باغی دانشور کسی بھی ملک کے ہوں علم کو ریاستی زنجیروں کی قید سے چھُڑا کر اسے عوام کی آگاہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا علم ایک جانب ریاست کے ہاتھوں میں ایک مُہلک ہتھیار ہے تو دوسری جانب باغی دانشور علم کے ذریعے عوام کو تعصّب‘ نفرت اور تنگ نظری سے چُھڑا کر ان میں آگاہی پیدا کرتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔