عمران خان نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9 جون 2020نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن پاکستانیوں میں پہلے سے مقبول ہیں۔ بطور لیڈر وہ سوچ سمجھ کر بات کرتی ہیں، اپنے لوگوں کو اعتماد میں لے کر چلتی ہیں اور عوامی فلاح وبہبود لیے کٹھن فیصلے کرنے سے نہیں ہچکچاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کے بحران کے دوران ان کی حکومت نے جو اقدامات کیے، اس کے باعث ملک سے کورونا کیسز کا فی الحال صفایا کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
لاک ڈاؤن نے جانیں بچائیں
مارچ کے اوائل میں جب کورونا کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی تھی، وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے صورتحال کا بغور جائزہ لیا اور فوری طور پر مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ حکومت کے مطابق یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن جانیں بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔
اُس وقت نیوزی لینڈ میں صرف سو کیسز سامنے آئے تھے اور کورونا سے ایک بھی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔ لیکن حکومت نے حالات بگڑنے کا انتظار نہیں کیا اور پندرہ مارچ کو بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان میں ایران سے زائرین اور تبلیغی اجتماع کے باعث وائرس پھیلنا شروع ہوگیا تھا لیکن وفاقی حکومت پر سخت غفلت کے الزامات لگ رہے تھے۔
نیوزی لینڈ نے سرحدیں بند کرنے کے دس روز بعد ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا۔ پاکستانی وزیراعظم کے برعکس، وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے لاک ڈاؤن کی افادیت پر سوال نہیں اٹھائے اور نہ ہی کورونا کو کوئی عام سا فلو قرار دیا۔ بلکہ انہوں نے پہلے دن سے قوم کے سامنے اس وبا کی سنگینی کا احاطہ کیا اور انہیں اس مشکل وقت سے صبر وتحمل سے نمٹنے کی تلقین کی۔
نیوزی لینڈ کوروناسے پاک پہلا ملک بن سکتا ہے
کیسز پھیلنے سے روکنے میں لاک ڈاؤن اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ ایک ماہ کے بعد حکومت نے پابندیوں میں نرمی شروع کردی۔ آج نیوزی لینڈ میں لگ بھگ تمام پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں، تاہم سرحدیں اب بھی بند ہیں۔
وزیراعظم کا واضح موقف
نیوزی لینڈ میں اقدامات اس لیے مؤثر ثابت ہوئے کیونکہ حکومت نے شہریوں کو تمام معلومات صاف اور دو ٹوک انداز میں پہنچائیں۔ پاکستان کے برعکس، حکومت نے اس مسئلے پر سیاست کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ وزیراعظم نے روز ٹی وی پر آکر متضاد باتیں نہیں کیں۔ مبصرین کے مطابق وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے واضح حکمت عملی اپنائی اور اس میں کسی کنفیوژن کی گنجائش نہیں چھوڑی۔
کورونا وائرس:نیوزی لینڈ کا جرمنی کو خراج تحسین
اس دوران وزیراعظم جب جب ٹی وی پر آئیں، انہوں نے لوگوں کے سامنے حقائق رکھے اور مستقل ایک ہی پیغام دیا کہ صحت اور زندگیاں بچانا ان کی اولین ترجیح ہے۔
شہریوں کا ردعمل
نیوزی لینڈ میں لوگ وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ دارالحکومت ویلنگٹن کے ایک شہری نے کہا کہ حکومت نے ہوائی باتیں کرنے کی بجائے حقائق عوام کے سامنے رکھے، "جس کے باعث لوگوں کی توقعات قابو میں رہیں۔ حکومت نے واضح طور پر بتایا کہ لاک ڈاؤن کیوں ضروری ہے اور اس کے مثبت نتائج کب تک آنا شروع ہوں گے۔ اس سے لوگوں کو اس کی افادیت سمجھنے اور اسے قبول کرنا آسان ہو گیا۔"
ٹیسٹنگ پر توجہ
حکومت نے حقائق مسخ کرنے اور سیاسی الزام تراشی میں الجھنے کی بجائے وبا پر نظر رکھنے اور ٹیسٹنگ بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ نتیجہ یہ کہ نیوزی لینڈ میں اب روزانہ آٹھ ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ملک میں اب تک دو لاکھ پچانوے ہزار ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں کورونا کے کل ۱۵۰۴ کیسز سامنے آئے جبکہ صرف ۲۲ اموات ہوئیں۔ اگر نیوزی لینڈ کا موازنہ اسی طرح کے ملک آئرلینڈ کے ساتھ کیا جائے، تو وہاں اب تک کوئی پچیس ہزار کیسز آچکے ہیں جبکہ ۱۶۷۹ اموات ہو چکی ہیں۔
کیا نیوزی لینڈ کا پاکستان سے موازنہ بنتا ہے؟
یہ بات درست ہے کہ نیوزی لینڈ کا جغرافیہ پاکستان سے بلکل مختلف ہے۔ ایک جزیرہ ہونے کے باعث نیوزی لینڈ ایک الگ تھلگ ملک ہے جہاں وبا کنٹرول کرنا شاید نسبتا آسان تھا۔ اسی طرح پاکستان کے برعکس، وہاں کی آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں اور لوگ گنجان آبادیوں کی بجائے کھلے علاقوں میں رہتے ہیں۔
اسی طرح وہاں لوگوں کی تعلیم اور صحت کا معیار بھی پاکستان جیسے ملک سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن شاید اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دونوں ملکوں میں لیڈرشپ کے معیار میں بھی زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ پاکستان میں حکومت نے کاروبار کو صحت پر ترجیح دی۔ لیکن نیوزی لینڈ میں وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کا پہلے دن سے موقف رہا کہ اگر لوگ صحت مند ہوں گے، تو معیشت دوبارہ اٹھا لیں گے۔
وائرس پر قابو پانے کے بعد حکومت کو توقع ہے کہ نیوزی لینڈ کی معیشت جلد واپس اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی اور ترقی کی شرح تین آشاریہ آٹھ فیصد کے قریب رہے گی۔
الیکس میتھوز / شاہزیب جیلانی