عمران خان کی سزا معطل کرنے پر فیصلہ التوا در التوا کا شکار
28 اگست 2023اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کے روز توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی کے لیے عمران خان کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہوا تو مدعی کے وکلا پرامید تھے کہ ان کے موکل کو رہا کر دیا جائے گا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری اورپر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت پر زور دیا کہ وہ ریاست کو اس مقدمے میں فریق بنا کر نوٹس جاری کیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کا اصرار تھا کہ یہ ایک قانونی تقاضا ہے۔ جب امجد پرویز نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تو وکیل دفاع سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ انہیں الیکشن کمیشن کے وکیل کے اس مطالبے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ یہ نوٹس اس مرحلے پہ جاری نہ کیا جائے۔
اس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور اعلان کیا کہ یہ کل بروز منگل صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ عدالت ریاست کو سزا کی معطلی کے حوالے سے نوٹس جاری کرے گی یا یہ نوٹس عمران خان کی مرکزی اپیل کے حوالے سے جاری کیا جائے گا۔
عمران خان کے حامی وکلا اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلے میںمزید التوا بھی خارج از امکان نہیں۔
ریاست کے فریق بننے کے خدشات اور التوا کی تلوار
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے قانونی ٹیم کے ارکان کا وثوق سے کہنا ہے کہ سزا کی معطلی کے معاملے میں کسی بھی طرح کا نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران خان کی لیگل ٹیم کے ایک رکن بیرسٹر گوہر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' الیکشن کمیشن کے وکیل کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔‘‘
عمران خان کی قانونی ٹیم کے ایک اور رکن نعیم حیدر پنجوتہ کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ سزا کی معطلی کے حوالے سے ریاست کو نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں میں اب بھی یہ خدشات ہیں کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کر سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حق میں بھرپور مہم چلانے والے میجر ریٹائرڈ عادل راجہ کا کہنا ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ تاخیری حربےاستعمال کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اگر عمران خان کی سزا معطل کر کے اس مقدمے میں رہا بھی کر دیا گیا یا فیصلہ ان کے حق میں بھی آگیا، تو پھر بھی ایسے منصوبے بنا لیے گئے ہیں کہ عمران خان کو کسی دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اگر ریاست کو فریق بننا ہوتا تو ان کو ٹرائل کے دوران فریق بننا چاہیے۔ تا ہم اگر پبلک پراسیکیوٹر چاہے تو وہ کسی بھی مرحلے میں فریق بن سکتا ہے اور اس مقدمے کے فیصلے میں تاخیر کروا سکتا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قانونی طور پر تو اگر کسی فیصلے کو محفوظ کر لیا جائے تو اس کے بعد نوٹس جاری نہیں کیا جاتا کیونکہ نوٹس عموما مقدمات کی شروع میں جاری کیے جاتے ہیں۔ تاہم اگر پبلک پراسیکیوٹر اس میں فریق بننا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔‘‘
جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق نظام انصاف میں کسی کے دلائل سننا بہت ضروری ہیں۔ '' پبلک پراسیکیوٹر یہ بہانہ کر سکتا ہے کہ ہمارے دلائل سنے بغیر سزا کی معطلی پر آپ فیصلہ نہیں دے سکتے اور یہ کہ دلائل دینے کے لیے وہ مزید تاخیری حربے استعمال کر سکتا ہے۔"
دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ ٹرائل کے دوران ریاست فریق نہیں بنی تو اب اسے نوٹس جاری کرنے کی کیا ضرورت ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل امجد پرویز کا اصرار تھا کہ ریاست کو نوٹس جاری کرنا قانونی طور پر ضروری ہے۔
دلائل نہ دینے پر چہ مگوئیاں
کچھ حلقے اس بات پر بھی چیمہ گوئیاں کر رہے ہیں کہ لطیف کھوسہ نے آج دلائل پیش کیوں نہیں کیے۔ تا ہم سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی عجیب بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میرے خیال میں دلائل دینے کی مزید کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘‘
پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اچھا ہوا کہ لطیف کھوسہ نے دلائل نہیں دیئے۔ اس نے پہلے ہی تین گھنٹے بول کر وقت زیادہ کیا اور خان کی اسیری کو طول دیا۔ اس طرح کے رویے سے حکومت کو خان کی سزا کی معطلی کے معاملے کو لٹکانے کا اور موقع مل جاتا ہے۔‘‘