عمران خان کے لئے چیلنجز
7 مارچ 2022سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان کو پارٹی کے اندر سے بھی خطرہ ہے کہ کچھ لوگ منحرف ہو جائیں گے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کے خلاف ایک لانگ مارچ کر رہی ہے اور نون لیگ کے رہنما حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما یار محمد رند اور جنوبی پنجاب کے صدر اسحاق خاکوانی کے بھی پارٹی سے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ سارا منظر نامہ عمران خان اور ان کے اقتدار کے لئے یک بڑے چیلنج کے طور پر ابھر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی لانگ مارچ، ’نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘
اندرونی اور بیرونی چیلنجیز
کچھ حلقوں میں یہ بھی تاثر ہے کہ نون لیگ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ کہ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئی تو یہ عمران خان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں عمران خان کو صرف اندرونی چیلنجز درپیش نہیں ہیں بلکہ خارجہ سطح پر بھی ان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے ایسے میں عمران خان کے ناقدین کہتے ہیں کہ انہوں نے یورپی یونین اور امریکہ کو ناراض کیا ہوا ہے جو پاکستانی ایکسپورٹ کی دو بڑی منڈیاں ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے، جن کے قرضوں پر پاکستان کا بہت انحصار ہے، بھی مغربی ممالک اور امریکہ کے زیر اثر ہیں۔
سیاسی بیان بازیاں
پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے فیصلہ آج سربراہی اجلاس میں کیا جائے گا جبکہ بلاول بھٹو نے عمران خان کو استعفی کے لئے چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ حکومت کے اتحادی پرویز الہی بھی اس صورت حال پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی وارننگ
وزیراعظم عمران خان نے آج پارٹی رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حزب اختلاف عدم اعتماد تحریک لانا چاہتی ہے تو لائے اور وہ اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اگر تحریک ناکام ہو گئی تو پھر وہ بتائیں گے کہ مخالفین کے ساتھ کیا ہو گا۔
’بچنا مشکل ہے‘
مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ عمران خان کا بچنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عمران خان عوام کی بھی حمایت کھو بیٹھا ہے اور ایوان کا بھی اعتماد کھو بیٹھا ہے۔ لہذا قومی امکان ہے کہ عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا دیا جائے گا۔‘‘
عمران کے بعد کا منظر
پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہیں کہ حزب اختلاف عمران کے بعد کے منظر پہ بھی متفق نہیں ہو گی کیونکہ تینوں جماعتیں چاہیں گی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ اقتدار میں حصہ ملے لیکن پرویز رشید اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ "میرا خیال ہے کہ عمران کے منظرنامے سے ہٹ جانے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں چاہیں گی کہ جلد از جلد انتخابات ہوں اور ایک نئی جمہوری حکومت معرض وجود میں آئے۔ نگران سیٹ اپ کے لئے حزب اختلاف کی جماعتیں آپس میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل کر لیں گی۔‘‘
دورہ روس سے پہلے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا تھا، پاکستان
چیلنجیز سے نمٹیں گے
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ نون لیگ خرید و فروخت کے ذریعے حکومت کے لیے چیلنجز کھڑے کرنے کی کوششیں کر رہی ہے لیکن حکومت ان سے نبرد آزما ہو گی۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیراعظم کے سابق مشیر برائے فوڈز سیکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کرے گی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمارے کچھ ارکان کی اپنے حلقوں کے ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے شکایت ہو سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کی قیادت کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نون لیگ یا دوسرے لوگوں سے وہ مل رہے ہوں لیکن ان کے ذہن میں یہ بات بہت واضح ہے کہ ریاست مریم نواز شریف اور نواز شریف جیسے لوگوں کو پسند نہیں کرتی۔ ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور اس لئے حزب اختلاف کے پاس نمبر پورے نہیں ہوں گے۔‘‘
علیم خان کے حوالے سے افواہیں
جمشید اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ علیم خان اور جہانگیر ترین کے حوالے سے افواہیں ہیں۔ "علیم خان کا اپنا کوئی گروپ نہیں ہے وہ جہانگیرترین گروپ کے لوگوں کے ساتھ ہی ہیں، جہانگیر ترین کے لوگ حکومت کو یقین دلارہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور وہ حزب اختلاف کے ساتھ نہیں جا رہے تو حکومت اس حوالے سے مطمئن ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔‘‘