1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورتوں کے لیے ’چاہیے نہ چاہیے‘ کی فہرست!

14 فروری 2022

مجھے یہ ہنسی اور مذاق اڑانے والی بات لگتی ہے، جب کوئی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ایک عورت کو اپنی حفاظت کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔

https://p.dw.com/p/46znp
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

یہ 'چاہیے‘ جیسے الفاظ عورت کی زندگی میں ہر اس موقع پر  آتے ہیں، جب عورت کسی غیر انسانی سلوک کا شکار ہوتی ہے۔ ردعمل میں جب وہ شکایت کرتی ہے تو جواب میں ''چاہیے‘‘ پر مبنی ایک لمبی فہرست نکل آتی ہے۔ پورے کپڑے پہننے چاہیے، شام کے بعد گھر سے نہیں نکلنا چاہیے، اکیلے بازار نہیں جانا چاہیے وغیرہ غیرہ۔ حالانکہ خواتین اپنی روزمرہ کی زندگی میں خیالی یا بےخیالی میں یہ سب کچھ پہلے سے ہی کر رہی ہوتی ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ جنسی ہراسانی، جنسی زیادتی اور جنسی تشدد کی شکار ہوتی ہیں۔

پیر کو سندھ کے ضلع میرپور خاص کے علاقے نوکوٹ میں ایک نابالغ سمیت دو لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اور بعد ازاں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ دراصل دو برادریوں کے درمیان اپنی مرضی کی شادی کے تنازعے کے پس منظر میں پیش آیا۔

بات یہ تھی کہ تانگری برادری کی لڑکی نے راجپوت لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کر لی تھی۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے ہاں اپنی مرضی کی زندگی جینے کو گھر سے بھاگنا کہتے ہیں۔ گھٹ گھٹ کر دوسروں کی زندگی جینے والوں کو خاندانی بچہ کہتے ہیں۔

 خیر، اب تانگری برادری سے یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ ایسے کیسے ہماری لڑکی نے ہماری ہی رضامندی کے خلاف شادی کر لی ہے۔ اپنی مرضی کے لڑکے کا انتخاب کرنے کا حق کسی کو کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ہماری لڑکی ہے تو ہمارے مرضی کے لڑکے کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے گی۔

 اب چونکہ یہ بدنامی کی بات تھی کہ ایک انسان نے عین انسانی کام کیا تو تانگری برادری کے افراد نے اپنی عزت بچانے کے لیے راجپوت برادری کی دو لڑکیوں کو گھر سے اغوا کر لیا اور بیس سے زائد افراد نے ان دونوں بچیوں (جس میں سے ایک لڑکی کی عمر 13 سال اور دوسری کی 19 سال ہے) کا اجتماعی ریپ کر دیا۔

اندازہ کریں کہ اس معاشرے کا مرد یہ ایک عاقل بالغ بچی کا اپنی رضا سے شادی کرنے کو عزت کا کباڑا سمجھتا ہے اور دو کمسن بچیوں کے ریپ کو عزت کا مداوا سمجھتا ہے۔ کوئی سمجھا سکتا ہے کہ اس پورے قصے میں گھر بیٹھی ان دو بچیوں کا کیا قصور تھا، جنہیں اب بھی نہیں پتہ کہ ہمیں کس بات کی سزا ملی؟

یہ واردات ہونے کے بعد جب گھر والوں نے علاقے کی پولیس سے فریاد کی کہ ہماری بچیوں کو بازیاب کرایا جائے تو وہ ''خود اجتماعی زیادتی میں ملوث‘‘ پائی گئی۔ آخر پولیس اہلکار بھی تو اسی معاشرے اور روایت کا حصہ ہیں۔ وہ ایسے لوگوں پر کیوں ہاتھ ڈالے، جنہوں نے اپنی عزت بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ تو دل پر پتھر رکھ کر کارروائی کرنے کے لیے تب سامنے آئے، جب گھر والوں نے انصاف مانگنے کے لیے سڑک کا رخ کیا۔

اس ساری صورت حال میں فکر کی بات یہ ہے کہ اب اس پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کا کیا ہو گا؟ اغوا والے مسئلے میں انتظامیہ نے، جس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بعد تو یہ فکر اور بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ سوال بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ جنہوں نے بے قصور بچیوں کا اغوا اور زیادتی گوارا کی وہ ''قصور وار‘‘ شادی شدہ جوڑے کے لیے کس طرح کے جذبات رکھتے ہوں گے؟

مردوں کے اس سماج میں عورت اگر ''چاہیے‘‘ والی فہرست پر عمل کر کے گھر بیٹھ جائے تو بھی کیا گارنٹی ہے کہ وہ مردانگی کے شکار نہیں ہو گی؟ کیونکہ جو لڑکیاں چپ چاپ گھر بیٹھی ہیں، ان میں سے کئی ناپسند مرد کے ساتھ سُلائی جارہی ہیں، کئی کار وکاری میں ماری جارہی ہیں تو کوئی بھائی بیٹے کے بدلے میں اٹھا لی جاتی ہیں۔ ختم نہ ہونے والے سلسلے کے بعد اگر کوئی کہے کہ عورتوں کو اپنی حفاظت کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تو اس پر ہنسنے کے علاوہ اور کیا کیا جائے؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26