یکم رمضان سے 28 رمضان کے درمیان بہت کچھ ہوا۔ وزیراعظم نے اسمبلی توڑ دی، سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کر دی۔ اسپیکر قومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا گیا تو اسپیکر نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ پھر تحریک انصاف کے ارکان نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دے دیے، اس کے باوجود تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔
ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد صدر مملکت کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ چیئرمین سینیٹ نے وزیراعظم کا حلف لیا۔ پھر وفاقی کابینہ کی تشکیل تاخیر کا شکار ہوئی، دوسری طرف عمران خان نے اہم ریاستی اداروں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی کا انتخاب مار دھاڑ اور دھکم پیل میں ہوا، جس کے بعد گورنر پنجاب نے نئے وزیر اعلی کا حلف لینے سے انکار کر دیا۔ آخر کار لاہور ہائی کورٹ کے بار بار حکم دینے کے بعد حمزہ شہباز کا حلف قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے لیا۔
رحمتوں کے اس مہینے میں شہباز شریف نے اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا، جہان ان کی کابینہ کے دو ارکان مریم اورنگزیب اور شاہ زین بگٹی کے ساتھ مسجد نبوی میں بد تمیزی اور گالم گلوچ کا واقعہ پیش آیا، جس پر عمران خان کے کئی ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا لیکن علماء کی اکثریت نے مسجد نبوی کی اس توہین کی شدید مذمت کی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان نے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد امریکی سازش کو جو بیانیہ متعارف کرایا، اس نے ان کے حامیوں میں واقعی ولولہ پیدا کیا۔وہ لوگ جو عمران خان سے ناراض ہو چکے تھے وہ دوبارہ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن مسجد نبوی کی توہین کے افسوسناک واقعے نے عمران خان کو دوبارہ آسمان سے زمین پر گرا دیا ہے۔
اس واقعے نے مجھ جیسے گناہ گار انسان کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ 27 ویں رمضان کی شب جو مسلمان مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی بجائے سیاسی نعرے بازی کرتا ہے اور چور چور کی آوازیں بلند کرتا ہے اس کے اندر ایمان سلامت بھی تھا یا نہیں؟ اس واقعے کو شیخ راشد شفیق نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر عمران خان کی فتح قرار دیا لیکن حقیقت میں اس واقعے سے عمران خان کو بہت نقصان ہوا ہے۔ اس واقعے کے 24 گھنٹے کے اندر اندر حمزہ شہباز کا حلف مکمل ہو گیا۔ اب مرکز اور پنجاب میں تبدیلی آچکی ہے۔یہ عید الفطر شہباز شریف کے خاندان کے لیے خوشیوں سے بھرپور ہو گی۔باپ وزیراعظم بن گیا اور بیٹا سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلٰی بن گیا لیکن مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آ رہا ہے،
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
معزرت خواہ ہوں کہ عید کے پر مسرت موقع پر میں وطن عزیز کے نئے حکمرانوں کو آنے والی مصیبتوں اور بربادیوں سے ڈرا رہا ہوں۔ نئے حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ پچھلے سال اکتوبر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تحریک عدم اعتماد پر بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی تو میں نے ان دونوں جماعتوں کی قیادت سے پوچھنا شروع کیا کہ پہلے مرکز میں تحریک عدم اعتماد آئے گی یا پنجاب میں؟ پہلے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے گی یا وزیراعظم کے خلاف؟ میرا سوال سن کر کہا جاتا، خاموش رہو، ہم چپ چاپ اپنے کام میں لگے ہیں، سوال پوچھ کر ہمارے دشمنوں کو خبردار نہ کرو۔
آصف زرداری اور شہباز شریف سارا ہوم ورک خاموشی سے کر رہے تھے۔ جب میں نے 12 جنوری 2022ء کو اپنے کالم کے ذریعے ڈی ڈبلیو اردو کے قارئین کو ''تبدیلی سرکار میں بغاوت‘‘ کی خبر دی تو کئی باخبر صحافیوں نے میرا مذاق اڑایا۔ ان دنوں مجھ پر جیو ٹی وی نے پابندی عائد کر رکھی تھی۔ جیو اور جنگ کے کچھ ساتھیوں نے بڑے رعونت آمیز انداز میں دعویٰ کیا کہ کمپنی تو یہی چلے گی اور عمران خان کی حکومت قائم رہے گی۔
جنوری اور مارچ 2022ء کے پہلے ہفتے تک آپ روزنامہ جنگ، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے کالموں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ بہت سے باخبر صحافی یہ لکھ رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی۔ انہی دنوں عمران خان کے ایک قریبی ساتھی یوسف بیگ مرزا کے گھر پر اس وقت کے وفاقی وزیر حماد اظہر سے ملاقات ہوئی۔ حماد اظہر کے والد میاں محمد اظہر کے ساتھ میری بڑی نیازمندی رہی ہے۔
کاشف عباسی، محمد مالک، عامر متین، رانا جواد اور کچھ دیگر دوستوں کی موجودگی میں حماد اظہر نے کہا کہ آپ میرے ساتھ شرط لگا لیں 'ہماری حکومت کہیں نہیں جا رہی‘۔ ان کے اعتماد کی وجہ یہ یقین تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے کچھ مایوس ضرور ہے لیکن ابھی تک عمران خان کے ساتھ ہے۔ میں نے شرط لگا لی کہ عمران خان کی حکومت قائم نہیں رہے گی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ ایم کیو ایم، بی اے پی اور مسلم لیگ (ق) عمران خان کے ساتھ نہیں رہے گی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ چودھری پرویز الہی سے متعلق میرا اندازہ غلط نکلا۔ چودھری شجاعت حسین میری توقع سے بھی زیادہ اپنے قول کے پکے نکلے۔ جس دن قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کے خلاف رولنگ دی تو مجھے حماد اظہر کا پیغام ملا کہ وہ شرط جیت چکے ہیں اور اب مجھے انہیں کھانا کھلانا ہے۔ میں نے جواب بھیجا کہ کچھ دن انتظار کر لیں۔ پھر جب ان کی حکومت ختم ہو گئی تو میرے کئی صحافی دوستوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ وہ جو جنوری اور فروری میں بڑے اعتماد سے لکھ رہے تھے کہ گھاتیں اور وارداتیں تو چل رہی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے، انہوں نے مارچ اور اپریل میں پلٹا کھا کر اسٹیبلشمنٹ پر عمران خان کے خلاف سازشوں کے الزامات لگانے شروع کر دیے۔
عمران خان نے کمال یہ کیا کہ ایک طرف تو نئی حکومت کو آئینی بحران میں پھنسا دیا اور دوسری طرف امپورٹڈ حکومت نامنظور کا نعرہ لگا کہ اپنی نااہلیوں کو امریکی سازش کے بیانیے میں چھپا لیا۔عمران خان اور ان کے ساتھی ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسی سال حکومت واپس آ جائیں گے لیکن حمزہ شہباز کے وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد صورتحال تیزی سے تبدیل ہو گی۔ عید کے بعد ایک طرف عمران خان اور ان کے کچھ ساتھیوں کے لیے سختیاں شروع ہونے والی ہیں تو دوسری طرف نئے حکمرانوں کو بھی کئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسجد نبوی کی توہین کے واقعے نے نئے حکمرانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ جارحیت بہترین دفاع ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف نئے نئے مقدمات قائم ہونے والے ہیں اور کچھ گرفتاریاں بھی ہوں گی۔یہ مقدمات اور گرفتاریاں انتقامی کارروائیاں قرار دی جائیں گی۔انتقامی کارروائیوں کا واویلا اور ماتم کچھ ماہ پہلے تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کرتے تھے۔ نیب نیازی گٹھ جوڑ کے نعرے لگتے تھے۔ اب یہ ماتم تحریک انصاف کرے گی اور نیب شہباز شریف گٹھ جوڑ مردہ باد کے نعرے لگائے گی۔ شہباز شریف یاد رکھیں کہ وہ پانچ سال کے لیے حکومت میں نہیں آئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے آئے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد انہیں بجٹ دینا ہے۔
شہباز شریف کو اپنی توجہ معیشت پر رکھنی ہو گی۔وہ سعودی عرب سے اچھی خبریں لائے ہیں۔ انہیں چین، امریکہ، اور یورپی یونین سے بھی اچھی خبریں لانا ہیں۔ انہیں پاکستانی عوام کو آئی ایم ایف کی شرائط کے زخموں سے بچانا ہے۔ معیشت سنبھل جائے، مہنگائی قابو میں آ جائے اور انتخابات سے پہلے پہلے اہم اصلاحات کا اعلان ہو جائے تو عمران خان کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ اگر معیشت کو سنبھالنے کی بجائے ساری توجہ تحریک انصاف کو دبانے پر لگا دی گئی تو پھر شہباز شریف کا انجام عمران خان سے زیادہ برا ہو گا۔ عمران خان کو کسی اور نے نہیں خود عمران خان نے نکالا ہے۔ شہباز شریف کو عمران خان نہیں بننا۔ اگر انہوں نے بھی عمران خان کی طرح انتقام کی سیاست کی تو عید کے بعد کچھ مصیبتیں ان کے لیے طوفان بھی بن سکتی ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔