غزنی پر قبضے کی جنگ: کم از کم سو افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک
13 اگست 2018افغان دارالحکومت کابل سے پیر تیرہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سینکڑوں طالبان عسکریت پسندوں نے چار روز قبل غزنی شہر پر قبضے کے لیے جو بہت بڑا حملہ شروع کیا تھا، وہ ابھی تک ختم نہیں ہوا اور اس دوران کابل حکومت کے کم از کم 100 سکیورٹی اہکار مارے جا چکے ہیں۔
افغان وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی نے بتایا، ’’آج چوتھا دن ہے اور کابل حکومت کے دستے ابھی تک طالبان کو اس شہر سے نکال باہر کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔‘‘ اے ایف پی کے مطابق وزیر دفاع بہرامی نے یہ بیان آج ایک ایسے وقت پر دیا جب صوبائی دارالحکومت غزنی کے ممکنہ طور پر طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کو روکنے کے لیے نہ صرف مزید سکیورٹی دستے ہاں پہنچ گئے ہیں بلکہ اس شہر میں طالبان کی پوزیشنوں کو فضائی حملوں سے بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
طارق شاہ بہرامی نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اب تک کم از کم 100 سرکاری سکیورٹی اہکار ہلاک ہو چکے ہیں اور وہ 20 سے لے کر 30 تک افراد ان کے علاوہ ہیں، جو عام شہری تھے لیکن اب تک غزنی میں ہونے والی لڑائی میں مارے جا چکے ہیں۔‘‘
افغان وزیر دفاع نے مزید کہا، ’’اس لڑائی میں گزشتہ چار دنوں کے دوران 194 طالبان شدت پسند بھی ہلاک کیے جا چکے ہیں، جن میں عسکریت پسندوں کے 12 اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔‘‘ بہرامی کے مطابق، ’’ان قریب دو سو طالبان حملہ آوروں میں وہ کم ازکم 95 شدت پسند بھی شامل ہیں، جو غزنی میں ان عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق غزنی میں اس چار روزہ لیکن بہت شدید لڑائی کے نتیجے میں شہر میں تمام مواصلاتی نیٹ ورک غیر فعال ہو چکے ہیں اور شہر کی صورت حال کے بارے میں کھل کر بات کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں شروع کیے گئے طالبان کے حملے کے دوران غزنی میں صورت حال سے متعلق زیادہ تر رپورٹوں کی غیر جانبدارانہ طور پر تصدیق ابھی تک ممکن نہیں۔
غزنی پر طالبان کا یہ حملہ ان عسکریت پسندوں کی ان کوششوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے، جس کے تحت وہ افغانستان کے بڑے شہری مراکز کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں۔ طالبان اپنی یہ مسلح کارروائیاں اس لیے بھی تیز کرتے جا رہے ہیں کہ ان پر یہ دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے کہ انہیں کابل حکومت کے خلاف اپنی قریب 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے اب امن مذاکرات کا آغاز کر دینا چاہیے۔
غزنی شہر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ملکی دارالحکومت کابل کو قندھار سے ملنے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے اور اسے کابل اور ملک کے جنوب میں عسکریت پسندوں کے زیر اثر علاقوں کے درمیان ایک ’گیٹ وے‘ کی حیثیت حاصل ہے۔
م م / ش ح / اے ایف پی