1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ: ترک امدادی کارکنوں کی واپسی، پرتپاک خیرمقدم

3 جون 2010

غزہ پٹی کے لئے امداد لے کر جانے والے متاثرہ بحری بیڑے کے سینکڑوں کارکنوں کا جمعرات کو ترکی واپسی پر شاندار استقبال کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/NgYr
تصویر: AP

دوسری جانب اسرائیل نے عالمی برادری کے ان مطالبوں کو رد کر دیا ہے کہ اس امدادی بیڑے میں شامل بحری جہازوں پر کئے گئے ہلاکت خیز اسرائیلی کمانڈو ایکشن کی تحقیقات کرائی جائیں۔

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب استنبول کے ہوائی اڈے پر اترنے والے سینکڑوں ترک امدادی کارکنوں کے استقبال کے لئے ان کے ہزاروں ہم وطن جمع تھے۔ استنبول کا کمال اتا ترک ہوائی اڈہ اسرائیل مخالف نعروں سے گونج رہا تھا۔

دریں اثنا غزہ پٹی کے فلسطینی عوام کے لئے سینکڑوں ٹن امدادی سامان لے کر جانے والے اس بحری بیڑے کے 466 ترک منتظمین کے ساتھ ساتھ ان جہازوں پر اسرائیلی دستوں کی کارروائی میں مارے گئے نو افراد کی لاشیں بھی ترکی پہنچ گئیں۔ غزہ پٹی کے علاقے تک پہنچنے کے خواہش مند لیکن سمندری سفر کے دوران خونریز کارروائی کے بعد اسرائیل سے ڈی پورٹ کئے جانے والے یہ امدادی کارکن فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے طیارے سے باہر نکلے۔ ایک اور طیارہ اکتیس یونانی، تین فرانسیسی اور ایک امریکی رضا کار کو لے کر یونان پرواز گر گیا۔

Türkei Demonstration gegen israelische Militäraktion in Gaza Flash-Galerie
اتا ترک ایئرپورٹ پر ترک اور فلسطینی پرچم لہراتے شہریتصویر: AP

ترکی میں قائم ’انسانی بنیادوں پر امداد کی فاؤنڈیشن‘ نامی ایک اسلامی فلاحی تنظیم کے سربراہ بلند یلدرم ، جو اس امدادی قافلے کے روح رواں بھی تھے، نے الزام لگایا کیا کہ اسرائیلی کمانڈوز ان بحری جہازوں پر بلاتفریق فائرنگ کی جو متعدد کارکنوں کی موت کا سبب بنی۔

بلند یلدرم نے کہا: ’’ان کے سامنے جو بھی آرہا تھا، وہ اس پر گولیاں چلا رہے تھے۔ کچھ ساتھیوں کو تو انہوں نے کھلے سمندر میں پھینک دیا۔ ایک صحافی جو اس کمانڈو آپریشن کی تصاویر بنا رہا تھا، اسے ایک میٹر سے بھی کم فاصلے سے سر میں گولی مار دی گئی۔ رضا کاروں نے اپنے تحفظ کے لئے اسرائیلی فوجیوں پر آہنی سلاخوں سے حملہ کیا۔ اس دوران کچھ اسرائیلی فوجیوں پر قابو پاکر ان کے ہتھیار بھی چھین لئے گئے، تاہم امدادی کارکنوں نے جوابی طور پر ان ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا۔‘‘

بلند یلدرم نے بتایا کہ کچھ رضا کار اب تک لاپتہ ہیں۔ ’انسانی بنیادوں پر امداد کی فاؤنڈیشن‘ نامی ترک فلاحی تنظیم کے سربراہ کے بقول غزہ پٹی کے متاثرین کے لئے امداد کی فراہمی کا سلسلہ نہیں رکے گا۔

ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر 42 ممالک کے 682 افراد چھ کشتیوں پر مشتمل بحری بیڑے پر سوار غزہ جانا چاہتے تھے۔ ایک حکومتی بیان کے مطابق آئرلینڈ، آسٹریلیا اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے بعض زخمی رضا کار اب بھی اسرائیل ہی میں ہیں۔

Abdullah Gül auf dem Weg nach Armenien
ترک صدر عبد اللہ گل نے واضح کردیا ہے کہ اب ترک اسرائیلی تعلقات پہلے جیسے نہیں رہیں گےتصویر: AP

اسرائیلی حکومت نے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات سے متعلق بین الاقوامی برادری کے مطالبات رد کر دئے ہیں۔ خاص طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ترکی ان واقعات کی شفاف چھان بین کے مطالبے کر رہے ہیں۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں اسرائیلی کارروائی پر اپنے محتاط ردعمل کا اظہار کرنے والے ملک اور اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ نے ان واقعات کی ایسی بین الاقوامی تحقیقات کی حمایت کی ہے،جن میں اسرائیل بھی شامل ہو۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ان امدادی بحری جہازوں پر سوار ’مشتعل افراد‘ نے اس کے فوجی کمانڈوز کو دبوچ کر ان سے ہتھیار چھینے اور ان پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے اس کمانڈو ایکشن کو ’ذاتی دفاع‘ سے تعبیر کیا ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں