غزہ جنگ: اسکولوں پر حملوں کا ذمہ دار اسرائیل ہے، اقوام متحدہ
28 اپریل 2015سن دو ہزار چودہ کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے ان اسکولوں کو بطور شیلٹر استعمال میں لایا جا رہا تھا۔ ہزاروں فلسطینی جانیں بچانے کے لیے ان اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ پیر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل کو پیش کیے جانے والے ایک خط میں ان افسوسناک حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا، ’’میں غزہ میں ہنگامی پناہ گاہوں کے طور پر بروئے کار لائے جانے والے اقوام متحدہ کے سات اسکولوں میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی درجنوں ہلاکتوں اور کم از کم 227 کے زخمی ہونے کے افسوسناک واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔‘‘
بان کی مون کا مزید کہنا تھا، ’’یہ انتہائی اہم امر ہے کہ ایسے نہتے انسان، جنہیں تحفظ کی ضرورت تھی اور جو اپنی پناہ کی خاطر اقوام متحدہ کے اُن اسکولوں کی طرف آئے تھے، انہوں نے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور وہ اس کامل بھروسے کے ساتھ وہاں سر چھپانے آئے تھے کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے گا، ان سب لوگوں کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی انکوائری رپورٹ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے اس ادارے کے سیکریٹری جنرل نے تاہم اس عزم کا اظہار کیا کہ اس قسم کے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے امکانات کو مکمل طور پر ختم کردینے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔
گزشتہ برس آٹھ جولائی تا چھبیس اگست تک اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی UNRWA کے زیر نگرانی چلنے والے سات اسکول جنگ سے فرار ہونے والے فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
اس انکوائری میں، جو ایک آزاد بورڈ کے ذریعے کرائی گئی تھی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے تین خالی اسکولوں کو ہتھیار ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور دو مرتبہ فلسطینیوں نے غالباً ان سکولوں سے فائرنگ بھی کی تھی۔ دریں اثناء بان کی مون نے اس قسم کے عمل کو بھی ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی سے ان واقعات کی چھان بین کروانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی انکوائری رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فلسطینی حکام نے کہا ہے کہ وہ اسے جرائم کی عالمی عدالت میں لے جائیں گے۔
گزشتہ برس ہونے والی غزہ جنگ میں اسرائیلی حملے اب تک کے سب سے تباہ کن حملے ثابت ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں بائیس سو فلسطینی مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر فلسطینی عورتیں اور بچے شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دوران 72 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 66 فوجی تھے۔ اس جنگ کا خاتمہ مصر کی ثالثی میں طے پانے والے جنگی بندی معاہدے سے ممکن ہوا تھا۔ اُدھر اقوام متحدہ کے ترجمان فرہان حق نے اس بارے میں کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے کہ آیا انکوائری رپورٹ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کی جائے گی یا نہیں۔ اُن کا کہنا تھا، ’’یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے۔‘‘
اُدھر حماس کے ترجمان سامی ابو زوہری نے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’ہم پوری دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قاتل، قابض اسرائیلی قوتوں اور اسرائیلی لیڈروں کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں لے جائیں اور ہم فلسطینی اتھارٹی سے بھی اسرائیلی لیڈروں کو عالمی عدالت میں لے جانے اور اس رپورٹ کی چھان بین کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘