غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟
17 جنوری 2025جنوبی اسرائیل میں حماس کی زیرقیادت دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل کی بمباری اور زمینی مہم جس نے غزہ کو برباد کر دیا ہے۔ اب پندرہ ماہ بعد اس تنازع سے نکلنے کا راستہ نظر آرہا ہے، جس میں انسانی جانوں کا غیرمعمولی نقصان ہوا ہے۔
غزہ میں فائر بندی کی عالمی سطح پر پذیرائی
یوروپی یونین امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تین مرحلوں پر مشتمل فائر بندی معاہدے پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
فائر بندی کے بعد یورپی یونین کے 27 ممالک، جن میں گوکہ اختلافات بھی ہیں اور محدود سفارتی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اب ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
برسلز میں یورپی کمیشن نے ثالثی کرنے والے ممالک کی تعریف کی اور جمعرات کو ہونے والے معاہدے کا خیرمقدم کیا۔
غزہ کی جنگ: مجوزہ فائر بندی معاہدے کے اہم نکات
یورپی یونین کے خارجہ امور کے ترجمان انوار الانونی نے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ "یورپی یونین فائر بندی کے نفاذ کی حمایت کے لیے تیار ہے۔
یورپی یونین کی ایگزیکٹو برانچ نے اعلان کیا کہ غزہ کے لیے اس کے 2025 کے انسانی امدادی پیکج کی مالیت 120 ملین یورو ہو گی، جس میں خوراک، پانی، پناہ گاہ اور صحت کی دیکھ بھال شامل ہے۔ اس کی ترجمان ایوا ہرنسیرووا نے کہا، "ہم جانتے ہیں کہ وہاں کی صورتحال تباہ کن ہے۔"
غزہ کی 2.3 ملین کی جنگ سے پہلے کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد مسلسل اسرائیلی حملوں کے باعث بے گھر ہو چکی ہے، بہت سے لوگ اپنے گھروں کے ملبے کا ڈھیر بن جانے کے بعد خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے سال کے آخر میں، اقوام متحدہ نے آئی پی سی کے عالمی فوڈ سیکیورٹی اقدام کے تخمینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1.8 ملین سے زیادہ لوگ انتہائی بھوک کا شکار ہیں۔
یورپی یونین رفح کراسنگ کی نگرانی میں مدد کر سکتی ہے
یورپی یونین قلیل مدتی انسانی امداد کے ساتھ ساتھ، طویل مدت میں غزہ کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ گزشتہ اپریل میں، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا تھا کہ صرف جنگ کے پہلے چار مہینوں میں غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو 18.5 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔
جمعرات کو، یورپی یونین نے اشارہ دیا کہ وہ وقت آنے پر بین الاقوامی شراکت داروں، خاص طور پر خلیجی ریاستوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ الانونی نے کہا "اب ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے۔"
الانونی نے کہا کہ یورپی یونین پہلے ہی مصر-غزہ سرحد پر اس وقت بند رفح کراسنگ پر اپنے طویل عرصے سے غیر فعال نگرانی کے مشن کو دوبارہ فعال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "یہ دونوں اطراف کی مکمل رضامندی اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے فیصلے پر منحصر ہے۔"
غزہ کا سیاسی مستقبل غیر واضح
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے ہف لوواٹ نے جمعرات کو ڈی ڈبلیو کو بتایا، اس سے پہلے کہ کوئی سنجیدہ تعمیر نو شروع ہو سکے، غزہ کی سیاسی اور سکیورٹی گورننس کے لیے ایک قابل عمل منصوبے کو واضح کرنا ہو گا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، "جنگ بندی کا معاہدہ، بذات خود، اگرچہ ایک اہم پہلا قدم ہے، لیکن کافی نہیں ہے، اور یہ آسانی سے ٹوٹ جائے گا اگر اس کی حمایت کے لیے یہ وسیع سیاسی راستہ موجود نہ ہو۔"
جنگ میں اسرائیل کا بیان کردہ ہدف حماس کا صفایا کرنا تھا، جس نے 2007 سے غزہ پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے، جب اس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس وقت کی حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی سیاسی جماعت فتح کو بے دخل کر دیا۔ تب سے یہ علاقہ اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے۔
فلسطینی اتھارٹی، جو مغربی کنارے پر جزوی کنٹرول رکھتی ہے، اسرائیل کے مغربی شراکت داروں کے منتخب کردہ فلسطینی مذاکرات کار ہیں۔ حالانکہ حالیہ عرصے میں اس کے جمہوری رویوں پر خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے مطابق غزہ کے لیے کسی بھی استحکام کے منصوبے کی کامیابی کا انحصار ایک نئے جوش کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی پرہے۔ لوواٹ کے کہنا تھا کہ یورپی یونین مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بڑے مالی معاون کے طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر، نیتن یاہو اپنی حکومت میں انتہائی دائیں بازو کے سخت گیر اراکین کے دباؤ میں رہتے ہیں اور چونکہ اور امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ بھی وائٹ ہاؤس میں واپس آنے والے ہیں، ایسے میں یورپی یونین فائربندی کے بعد ہونے والی پیش رفت پر کتنا اثر انداز ہو سکے گی۔
ٹرمپ اسرائیل کے قریبی حمایتی ہیں، اور ان کی آنے والی انتظامیہ میں شخصیات نے موجودہ اسرائیلی حکومت کے انتہائی قوم پرستانہ موقف کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
لوواٹ کے مطابق نئے صدر ان آوازوں پر کان دھرتے ہیں یا نہیں یہ دیکھنا باقی ہے، لیکن یورپی یونین کے لیے گنجائش موجود ہے۔
لوواٹ نے کہا،" ٹرمپ کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن میرا خیال ہے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ یہ باور کرانا چاہیں گے کہ انہوں نے غزہ میں جنگ ختم کرا دی۔" لیکن اس سے آگے غزہ کے مستقبل کے بارے میں ان کی پوزیشن ابھی واضح نہیں ہے۔
لوواٹ نے مزید کہا، "عرب ممالک، خاص طور پر عرب خلیجی ممالک کے ساتھ شراکت داری میں کام کرنے والی یورپی حکومتوں کو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مثبت انداز میں بات چیت کرنی چاہیے۔" کیونکہ "یورپی یونین کے لیے چیلنج اپنے نعروں کو عملی شکل دینا ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (ایلا جوئنر، برسلز)